اس تحریر کو پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔
میں تم سے سچ کہتاہوں جس کے کان ہوں وہ سن لے کہ “ابن آدم اس لیے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اس لیے کہ خدمت
کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے”۔[1]
عظیم
ربائی یسوع نے یہ الفاظ اس وقت کہے جب یروشلم کی طرف جاتے ہوئے زبدی کی ماں اپنے
بیٹوں کے ہمراہ اس سے ملی۔
یروشلم سے جاتے جاتے میں بھی دیگر افراد کی طرح اس کی معیت
میں ہوگیاتھا کیونکہ اس کا کلام حکیمانہ اور دانائی سے بھرپور تھا۔لوگ اسے سنتے تو
اسی کا ہوکر رہ جاتے ،اسرائیل کے عوام وخواص اس کے دلدادہ ہوتے چلے جارہے تھے،چنانچہ
میں بھی اس کے ساتھ اسی لیے ہولیا تاکہ اس کی باتوں کی حکمت کے موتیوں سے اپنا
دامن بھر سکوں اور 'اُس'خدا کی بادشاہت میں اِس کے ساتھ داخل ہوجاؤں جس کی وہ
منادی کرتا رہاہے۔بے شک اس کی زبردست تعلیمات،رومیوں کے جبرواستعمار کی چکی میں
پسنے والے اسرائیل کے کثیر افراد کے لیے مرہم کا کام دے رہی تھیں اور وہ اس کا وعظ
سن کر پرامید ہوچکے تھے کہ اب اسرائیل کی بحالی کا وقت آچلا ہے اوروہ منجی آپہنچا
ہے جو اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی جان کی بازی تک لگا دینے کے لیے تیار ہے۔
لیکن
جب میں نے اس کے ان الفاظوں پر دوبارہ سے غور کیا جن میں اس
نے اپنی آمد کا مقصد بتایاکہ"کہ ابن آدم اس لیے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اس
لیے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے" تو بےساختہ میرا
ذہن اُس تورات کی طرف چلاگیا جسے خداوند نے اسرائیل کے لیے کوہ طور پرموسیٰ
کوتفویض کیاتھا ۔بےشک ،عظیم استاد یسوع اپنے شاندار پہاڑی وعظ میں یہ کہہ چکاتھا
کہ "یہ نہ سمجھو کہ میں تورات او رنبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا
ہوں،منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں"[2]لیکن
پھر بھی مجھے اس بات پر شدید حیرت تھی کہ خود کو تورات کی تکمیل کرنے والاقرار
دینے والے اس زبردست استاد نے تورات کے ان ابتدائی قصص کے متعلق کچھ بھی نہیں کہاجس
کو ہمارے اجداد صدیوں سے نسل درنسل بیان کرتے چلے آرہے تھے۔
یسوع
کایہ رویہ مجھے-بحیثیت تورات کے طالب علم ہونے کے-الجھن میں ڈال رہاتھا۔میں بہت کچھ
پوچھنا چاہتا تھا مگر اس کی شان اور شخصیت
اور رعب ہی ایسا تھا کہ میں اس سے یہ پوچھنے کی جرات بھی نہیں کرپارہاتھا کہ اے
عظیم استاد!کیا موسیٰ کی تورات کے مطابق تو واقعی بہتیروں کے بدلے اپنی جان فدیہ
میں دینے آیا ہے؟
اس کے ہمراہ یروشلم سے یریحو کوجاتے ہوئے میں سوچنے لگاکہ
اس عظیم استاد کی آمد یقیناً اسرائیل کو اس لانظیر گناہ سے نجات دینے والی ہے جس
میں مبتلا ہوکرہمارے باپ آدم کے وسیلہ سے پوری انسانیت ہی گناہ آلود ہوگئی تھی
اورآدم کی توبہ کے بعد بھی وہ گناہ انسانی سرشت میں منتقل ہوتارہاتھا،مگر مجھے یہ
ہرگز سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس قدر زبردست گناہ کے باوجود نوح کیسے خداوند کی نظر
میں مقبول ہوگیا؟[3]
یقیناً اسرائیل کاقدوس جوکہ صیہون میں
سکونت پذیر ہے،وہ پاک ہے ،اس نے ہمیں پاک کرنے کےلیے شریعت دی،ہمارے گناہوں
کی تطہیر کےلیے کہانت دی،اپنے برگزیدہ نبیوں کوبھیجا،اس نے ہمیں اپنے لیے پاک ہونے
کاحکم دیا[4]اور وہ
پاک دلوں پرہی مہربان ہوتاہے[5] تو
پھر اس نے کیسے نوح جیسے گناہ آلود انسان کواپنی نظر میں مقبول ٹھہرا لیا؟مجھے
محسوس ہونے لگا -ہوسکتا ہے کہ میں درست نہ ہوں-کہ شاید گناہ سے پاک ہونا ہی وہ
بنیادی وجہ تھی جس سے روئے زمین پر فقط خاندان نوح ہی باقی رہا باقی سب کوخداوند
نے نیست ونابود کردیا،مگر میں نے فوراً ہی اس خیال کو خود سے الگ کردیا کیونکہ یہ
میرے عظیم استاد یسوع کی تعلیم کے مطابق نہ تھا۔
سوال
پھر بھی وہیں کاوہیں تھا کہ توپھر طوفان
سے فقط نوح کاخاندان ہی کیوں بچا؟ہوسکتا ہے کہ خداوند نے انہی لوگوں کو زمین پر
باقی چھوڑا ہو جن میں گناہ کے اثرات بالکل بھی نہ تھے اورہراس ذی نفس کو غرق
کردیاگیا جس میں رتی برابر بھی گناہ کے اثرات موجودتھے۔مجھے لگا کہ شاید مجھے میرے
سوال کاجواب مل گیا ہے،آخر لوط کے معاملے میں بھی تو خداوند نے بالکل اسی طرح کیا
تھاکہ راستبازوں کو صدوم کی بستی سے نکال لیا اور تمام گناہگاروں کوتباہ
کردیا۔مجھے اپنے مقدس بزرگ ابراہیم کی دعایادآنے لگی جواُس نے اس وقت خداوند کے
حضور گڑگڑا کرکی جب خداوند کے فرشتے لوط کی بستی کی طرف عذاب نازل کرنے کے واسطے
روانہ ہوچکے تھے۔
لیکن
ابراہیم خداوند کے سامنے کھڑے
ہو گئے۔ ابراہیم نے خداوند کے
قریب آ کر کہا، " اے خداوند
جب تو بُروں کو تباہ کرتا ہے تو کیا نیک
و راستبازوں کو بھی بر باد کرتا ہے ؟۔
اگر کسی وجہ سے ایک شہر میں پچاس
آدمی راستباز ہوں تو تُو کیا کرے گا؟ کیا تو اس شہر کو تباہ کرے گا؟ ایسا ہر گز نہ ہو گا۔ وہاں کے پچاس زندہ نیک و راستبازوں کے لئے
کیا تو اس شہر کو بچا کر اس کی حفاظت کرے گا۔ یقیناً تو برے لوگوں کے
ساتھ اچھے لوگوں کو مار نے کے
لئے ایسا نہیں کرے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اچھے
اور برے دونوں برابر ہیں۔ اور تو
پوری دُنیا کا حاکم ہے اور تجھے وہی کر نا چاہئے جو صحیح ہے۔ " تب خداوند نے کہا کہ میں سدوم میں اگر پچاس نیک لوگوں کو
دیکھ لوں تو میں پو رے شہر ہی کو بچا کر
اس کی حفاظت کروں گا۔ تب ابراہیم
نے خداوند سے کہا کہ اگر تجھ میں اور مجھ میں مماثلت پیدا
کی جائے تو میں تو صرف دھول و گرد اور
راکھ کے برابر ہوں گا۔ اور مجھے موقع دے
کہ میں اس سوال کو پوچھوں۔ اور
پوچھا کہ اگر کسی وجہ سے ان میں سے پانچ آدمی
کم ہو کر صرف پینتالیس آدمی
راستباز ہوں تو کیا تو اس شہر کو تباہ کرے گا؟ اس پر خداوند نے اس سے
کہا کہ اگر میں پینتالیس نیک آدمیوں کو دیکھوں تو اس شہر کو تباہ نہ کروں
گا۔ پھر ابراہیم نے خداوند سے کہا کہ اگر تو صرف چالیس نیک لوگوں کو
دیکھے تو کیا تو اس شہر کو تباہ کر
دے گا؟ خداوند نے اس سے
کہا کہ اگر میں چالیس نیک آدمیوں کو دیکھوں تو اس شہر کو تباہ نہ کروں
گا۔ تب ابراہیم نے خداوند سے کہا کہ مجھ پر غصہ نہ ہو۔ اور میں اس سوال کو
پوچھوں گا۔ اگر کسی شہر میں صرف تیس نیک آدمی
ہوں تو کیا تو اس شہر کو تباہ کرے
گا؟ خداوند نے اس سے کہا کہ اگر وہاں تیس آدمی بھی نیک ہوں تو میں ان کو تباہ نہ کروں گا۔
پھر ابراہیم نے کہا کہ میرا خداوند کچھ
بھی کیوں نہ سمجھے۔ لیکن میں تو ایک اور سوال ضرور کروں گا۔ پوچھا کہ اگر بیس
آدمی راستباز ہوں تو کیا کرے گا؟ خداوند نے اس سے
کہا کہ اگر میں وہاں بھی بیس نیک آدمیوں کو پاؤں تو اس کو تباہ نہ کروں
گا۔ پھر ابراہیم نے خداوند سے کہا، " برائے مہر بانی مجھ پر غصہ نہ کر۔ صرف ایک مرتبہ
اور سوال پوچھوں گا۔ اگر تو صرف میں دس نیک آدمی دیکھے
، تو تُو کیا کرے گا؟ "
خداوند نے اس سے کہا کہ اگر اس شہر میں صرف دس نیک آدمیوں کو
پاؤں تو میں اس کو تباہ نہ کروں گا۔ خداوند نے
جب ابراہیم سے باتیں کر نا ختم
کیں تو وہاں سے چلا گیا۔ اور ابراہیم
بھی خود وہاں سے اپنے گھر کو واپس چلے گئے۔[6]
|
اس
سے پہلے کہ میں اپنے اس گمان کویقین کاجامہ پہناتاکہ اب مجھے میرے سوال کاجواب مل
گیا ہے،میری نظر یسوع پرپڑی جونہایت وقار ،بردباری ،متانت اورخاموشی سے یریحو کی
طرف گامزن تھا اور مجھ سمیت ایک بھیڑ اس کی ہمراہی تھی۔چنانچہ میں نے پھر سے اپنے
اس خیال کوجھٹک دیا ۔ لیکن خیالات کاتسلسل تھاکہ ختم ہونے کوہی نہیں آرہاتھا ،اس
عظیم استاد(یسوع) کی ایک بات نے ہی میرے قلب وذہن میں ہلچل سی مچا دی تھی،چنانچہ
باوجود کوشش کے میں خیالوں کی آمد روک نہیں پارہاتھا۔مجھے خیال آیا کہ طوفان میں
گناہ گاروں کے ہلاک ہوجانے کے بعد 'خداوند کے مقبول ِنظر'نوح کی آمدہ نسل یقینا ً
راستباز ہوئی ہوگی۔آخر طوفان سے قبل بھی تو حنوک جیسے راستباز موجودتھے جو خداوند
کے ساتھ چلتے رہے تھے۔نجانے کیوں مجھے بار بار یسوع کی بات بےچین کررہی تھی کہ ' ابن
آدم اس لیے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اس لیے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے
بدلے فدیہ میں دے'۔اگر ساری نسل انسانی ہی
آدم کی غلطی کے باعث گناہ آلود ہوچکی تھی تو حنوک اور نوح جیسے راستباز خداوند کی
نظر میں کیسے مقبول ٹھہرگئے؟یکایک مجھے خیال آیا کہ اگر حنوک خداوند کی نظر میں
مقبول نہ تھا تو وہ آسمان پر خداوند کے پاس کیسے پہنچ گیا؟[7]
ہم
یریحو پہنچ چکے تھے۔ مگروہاں پہنچنے کے باوجود میں حاضر الدماغ نہ تھا۔سوالات
کاایک سمندر تھا جو میرے ذہن میں موجیں ماررہاتھا۔مجھ سے رہا نہیں گیااور میں یسوع
کے قریب پہنچ گیا۔میں نے اسے کہا کہ اے استاد کیا میں تجھ سے کچھ سوال کرسکتاہوں؟
اس
نے ایک مشفقانہ نظر مجھ پرڈالی اور مسکراتے ہوئے اجازت دےدی۔
میں نے کہنا شروع کیا:"اے استاد!جیساکہ تو نے فرمایا
کہ تو اس لیے نہیں آیا کہ خدمت کرائے بلکہ اپنی جان فدیہ میں دے،توآخر تو کن کے
لیے فدیہ دے گا؟آدم کے باعث دنیا میں آنے والے ازلی گناہ سے آلودہ انسانیت کوتو
خداوند ہماراخدا نوح کے طوفان میں ہلاک کرچکاہے۔یقیناً اس طوفان سے خداوند نے فقط
انہی کو بچایا جس میں اس نے کوئی گناہ کااثر نہ پایا،اور ان بچنے والوں میں فقط
آٹھ افراد(نوح ،اسکی بیوی،اس کے تین بیٹے اوران کی بیویاں) شامل ہیں۔اب صرف ان آٹھ
آدمیوں کے فدیہ کے لیے تو آیا ہے؟
میرے
یہ کہتے ہوئے ،اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی اور اس کی جگہ ایک سنجیدہ سوچ
نے لے تھی۔ میں نے انتظار کیا کہ وہ کچھ کہےمگر وہ خاموش ہی رہا۔
اس کی خاموشی طویل تر ہوتی چلی گئی۔
کافی انتظار کے بعدمیں نے اس سے دوبارہ کچھ کہنے کے لیے
اجازت چاہی اور اس نے سر کے اشارے سے اجازت دے دی۔
میں نے کہنا شروع کیا:"اے استاد!جیسا کہ ہمیں شریعت کی
کتاب میں بتایاگیاہے کہ جب طوفان نوح کے بعد دنیا تباہ ہوچکی تھی اور طوفان کے بعد
نوح کووسیلہ تجدیدبناکرخدانے ہم سے دائمی عہد قائم کیا،[8]اس عہد
کانشان بھی دیااور اسی عہد کے وسیلہ سے
ابراہیم وموسیٰ کے عہود کی بنیاد ڈالی گئی۔ان دونوں عہدوں میں خداوند نے ہمیں ان
گنت نشانات دیئے،وعد ے کیے،بشارات دیں مگر ا ن سب کے باوجود نہ ہی نوح کے عہد میں
اور نہ ہی ابراہیم کے عہد میں حتی کہ موسیٰ کے عہد میں بھی مجھے خداکے اس الہامی
منصوبے کاذکر نہیں ملتا کہ تجھے ہمارے لیے کفارہ دیناپڑے گا تاکہ ہماری نجات ہوبلکہ
ہمارے ہر طرح کے گناہوں کی بخشش کے لیے تو خداوند نے ہمیں کفارے کا کا عظیم دن دیا
ہے جس کے وسیلہ سے اسرائیل کے گناہ معاف کیے جاتے ہیں۔کوہ سینائی پر موسیٰ کو دی
گئی زبانی تورات میں بھی توخداوندنے اسی طرح فرمایا ہے۔"
A.
ربائی اشماعیل کہتے ہیں:کفارہ کی چار قسمیں ہیں۔
B.
اگر کوئی کسی نے (اوامر میں سے)حکم کی خلاف ورزی کی لیکن
شرمندہ ہوا،اس کے اپنی جگہ سے حرکت کرنے سے پہلے ہی اس کے گناہ معاف کردیئے جائیں
گے۔
C.
کیونکہ کہاگیاہے کہ"اےبرگشتہ فرزندوں!واپس آؤ تومیں
تمہاری بغاوتوں کوشفاء دوں گا"(یرمیاہ3:22)
4:7
A.
اگرکوئی (منہیات میں سے)حکم کی خلاف ورزی کرلیتاہے لیکن
پشیمان ہوا،تویہ پشیمانی اس کی سزا کو معطل کردے گی اوروہ یوم کفارہ پرکفارہ
اداکرے گا۔
B.
کیونکہ کہاگیاہےکہ "کیونکہ اُس روزتمہاری پاکیزگی
کےلیے تمہارے واسطے کفارہ دیا جائے گا"(احبار16:30)
4:8
A.
اگر وہ کوئی ایسا حکم توڑتا ہے جس کی سزا دنیاوی عدالت میں
قتل یا پھانسی ہے،لیکن اپنے فعل پرنادم ہوتاہے تویہ ندامت اور کفارے کادن سزاکو
معطل کردیتے ہیں اور سال کے دوسرے دنوں کی آزمایشیں اس کے گناہ کو مٹا ڈالیں گی۔
B.
کیونکہ کہاگیاہےکہ"تومیں ان کوچھڑی سے خطاکی سزا دوں
گا"(زبور89:32)
C.
لیکن اگر کوئی آسمان کے نام کو جان بوجھ کر بےحرمت کرتاہے
اور پچھتاتاہے تو یہ پچھتاوا اس کی سزاکومعطل کرنے کی طاقت نہیں رکھتااورنہ ہی یوم
کفارہ اس کوخلاصی دلاسکتاہے۔
D.
لیکن یوم کفارہ اور ندامت ایک تہائی،تکالیف کاابتلاء ایک
تہائی،اور تکالیف کے ساتھ موت مکمل طور پر اسے گناہ سے خلاصی دے دے گی۔
E.
اوراسی طرح کے معاملے کے لیے کہا گیا ہے کہ "اس بدی کا
تم سے کفارہ نہ کیا جائے گا جب تک کہ تم مرنہ جاؤ"(اشعیا22:14)[9]
اے
عظیم استاد!اسرائیل کے بزرگ جوشروع سے ہی تورات ،خواہ وہ لکھی ہوئی ہویازبانی، کی
تعلیم دیتے چلے آرہے ہیں اِس طرح کافدیہ میں نے ان کی تعلیمات میں تو نہیں پایاجس
کی بابت تو نے ابھی کچھ دیرپہلے کہہ کر مجھے تجھ سے کلام کرنے پرابھارا۔توپھر تو
کس طرح سے فدیہ دے کرہمیں ابدی نجات دے
گا۔؟"
میری گفتگو ختم ہوچکی تھی مگر اس کی خاموشی ویسے ہی برقرار
تھی۔
کافی دیر بعد اس نے سکوت کوتوڑا اور رخ موڑ کراپنے ساتھیوں
کویریحو سے نکل چلنے کاحکم دیا۔
جب وہ یریحو سے نکل رہاتھا،اس وقت بھی ایک بڑی بھیڑ اس کے
ہمراہ تھی مگراس کی خاموشی نے میرے قدموں کو روک لیا تھا اور میں چاہنے کے باوجود
اس کاساتھ نہیں دے پارہاتھا ۔وہ سب یریحو سے نکلتے چلے گئے اور بالآخر میں اپنے
سوالات کے ہمراہ وہاں تن تنہاکھڑارہ گیا۔