مقدمہ یسوع کےتراشیدہ افسانے کا تاریخی وتحقیقی جائزہ
تحقیق : عبداللہ غازی ،
مقدس پولس کی منادی کے نتیجے میں مشرک اقوام سے بڑی تعداد میں افراد مسیحیت داخل ہوئے جو کہ نہ ہی شریعت کے بکھیڑوں سے واقف تھے اور نہ ہی تاریخ کے اس یہودی پس منظر سے آگاہی رکھتے تھے جس دوران یسوع نے اپنی منادی کی . ان ناواقف مشرکین نے پولوسی نظریات پر مشتمل مسیحیت کو قبول کرکے یسوع سے متعلق ہر اُس تاریخی و الہامی سچائی کا انکار کیا جو پولوسی نظریات کے مخالف تھی. مشرکین مسیحیوں کے اس رویے کا محرک مقدس پولس کا "روح القدس یافتہ" وہ ارشاد َتھا جس میں وہ اپنے مخالفین اور ان کی تعلیمات پر کان دھرنے والوں پر لعنتی ہونے کا فتوی عائد کرتے ہیں.
مقدس پولس کی منادی کے نتیجے میں مشرک اقوام سے بڑی تعداد میں افراد مسیحیت داخل ہوئے جو کہ نہ ہی شریعت کے بکھیڑوں سے واقف تھے اور نہ ہی تاریخ کے اس یہودی پس منظر سے آگاہی رکھتے تھے جس دوران یسوع نے اپنی منادی کی . ان ناواقف مشرکین نے پولوسی نظریات پر مشتمل مسیحیت کو قبول کرکے یسوع سے متعلق ہر اُس تاریخی و الہامی سچائی کا انکار کیا جو پولوسی نظریات کے مخالف تھی. مشرکین مسیحیوں کے اس رویے کا محرک مقدس پولس کا "روح القدس یافتہ" وہ ارشاد َتھا جس میں وہ اپنے مخالفین اور ان کی تعلیمات پر کان دھرنے والوں پر لعنتی ہونے کا فتوی عائد کرتے ہیں.
"مَیں
پِھر کہتا ہُوں کہ اُس خُوشخبری کے سِوا جو تُم نے قبُول کی تھی اگر کوئی تُمہیں
اَور خُوشخبری سُناتا ہے تو ملعُون ہو۔"گلتیوں 1:9
عہد
جدید میں شامل سب سے قدیم تحاریر پولس کے خطوط ہیں جن کا زمانہ تصنیف 40 تا 60
عیسوی بنتا ہے جبکہ اناجیل اربعہ کی تصنیفی تواریخ پہلی صدی عیسوی کے آخری زمانہ
سے تعلق رکھتی ہیں چنانچہ یہ بالوثوق کہا جا سکتا ہے کہ جب اناجیل لکھی گئیں تو
پولوسی نظریات مسیحیت میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکے تھے. اناجیل بھی انہی پولوسی
نظریات کی ترویج کے مقصد کے تحت اور یہود دشمنی کے عنصر کو مسیحی ایمانداروں میں
پروان چڑھانے کے لیے وجود میں لائیں گئیں جنہیں عوام الناس کی جانب سے تقریبا
دوسری صدی عیسوی کے آخر اور تیسری صدی کی ابتداء میں الہامی ہونے کی سند ملنا شروع
ہوئی. اسی وجہ سے موجودہ تمام بڑی کلیسیائیں اور ان سے نکلی چھوٹی موٹی ذیلی
جماعتیں انجیل نویسوں کے اس دعوے پر آنکھ بند کرکے یقین رکھتی ہیں کہ یسوع کے آخری
صلیبی مقدمے میں یہودیوں کا ہاتھ تھا اور انکو یہودیوں نے عدالت سے سزا دلوا کر
مصلوب کروایا تھا.
بہت کم اشخاص نے یہود دشمنی سے معمور انجیل نویسوں کے دعاوی کے برخلاف، اس بات کی تفہیم کے لیے سعی کی ہے کہ اصل حقائق تک پہنچا جائے یا اُس وقت کے حالات اور واقعات کو جاننے کی کوشش کی جائے کہ کیا انجیل نویسوں کا یہ دعوی درست ہے یا پھر یہ بھی مشرک مسیحیوں کا آل ابراہیم سے فقط حقد ہے.
بہت کم اشخاص نے یہود دشمنی سے معمور انجیل نویسوں کے دعاوی کے برخلاف، اس بات کی تفہیم کے لیے سعی کی ہے کہ اصل حقائق تک پہنچا جائے یا اُس وقت کے حالات اور واقعات کو جاننے کی کوشش کی جائے کہ کیا انجیل نویسوں کا یہ دعوی درست ہے یا پھر یہ بھی مشرک مسیحیوں کا آل ابراہیم سے فقط حقد ہے.
زیر
نظر مختصر سا مضمون بھی ایک ایسی ہی چھوٹی سی کوشش ہے تاکہ اندھی عقیدتوں پر سوال
اٹھانے کی جرات پیدا کی جاسکے، بہت سے ایسے تاریخی حقائق کو سامنے لایا جا سکے
جنہیں عمدا مستور کردیا گیا ہے اور جو باتیں مخفی رہی ہیں انہیں محققین کے سامنے
لا کر اس مضمون پر روایتی تفسیر سے ہٹ کر تحقیق کا باب کھولا جاسکے۔
اناجیل کے کسی ذوعلم قاری پر یہ مخفی نہیں کہ یسوع نے کہیں بھی فصح کا برہ ہونے کا دعوٰی نہیں کیا بلکہ یہ دعوی بہت بعد میں ان سے منسوب کردیا گیا. اس دعوے کے موجد مقدس پولس اپنے خط میں لکھتے ہیں.
ہمارا بھی فَسح یعنی مسِیح قُربان ہُؤا۔ پس آؤ ہم عِید کریں۔کرنتھیوں اول 5:7
اسی پولوسی نظریہ کو تقویت دینے کے لیے انجیل یوحنا کا نامعلوم مصنف یوحنا نبی کے منہ میں یہ الفاظ ڈال کر ان کا انتساب یسوع کی طرف کرتا ہے کہ " یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گُناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔" یوحنا1:29
عید فصح کے اس پورے معاملے کا تنقیحی پوسٹ مارٹم معروف یہودی ہائی اتھارٹی اسکالر ڈاکٹر ہیوجےشون فیلڈ اپنی بیسٹ سیلر بک Passover plot میں کر چکے ہیں. کامل استفادہ کے لیے وہاں سے رجوع کیا جا سکتا ہے. یہاں ہم صرف انہی مقامات پر بات کریں گے جن کے متعلق کچھ دیسی عیسائیوں نے دھوکہ دہی کی واردات کرتے ہوئے تاریخی حقائق کو یسوع کی مانند مصلوب کرنے کی کوشش کی ہے.
اناجیل کے کسی ذوعلم قاری پر یہ مخفی نہیں کہ یسوع نے کہیں بھی فصح کا برہ ہونے کا دعوٰی نہیں کیا بلکہ یہ دعوی بہت بعد میں ان سے منسوب کردیا گیا. اس دعوے کے موجد مقدس پولس اپنے خط میں لکھتے ہیں.
ہمارا بھی فَسح یعنی مسِیح قُربان ہُؤا۔ پس آؤ ہم عِید کریں۔کرنتھیوں اول 5:7
اسی پولوسی نظریہ کو تقویت دینے کے لیے انجیل یوحنا کا نامعلوم مصنف یوحنا نبی کے منہ میں یہ الفاظ ڈال کر ان کا انتساب یسوع کی طرف کرتا ہے کہ " یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گُناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔" یوحنا1:29
عید فصح کے اس پورے معاملے کا تنقیحی پوسٹ مارٹم معروف یہودی ہائی اتھارٹی اسکالر ڈاکٹر ہیوجےشون فیلڈ اپنی بیسٹ سیلر بک Passover plot میں کر چکے ہیں. کامل استفادہ کے لیے وہاں سے رجوع کیا جا سکتا ہے. یہاں ہم صرف انہی مقامات پر بات کریں گے جن کے متعلق کچھ دیسی عیسائیوں نے دھوکہ دہی کی واردات کرتے ہوئے تاریخی حقائق کو یسوع کی مانند مصلوب کرنے کی کوشش کی ہے.
تاریخ
سے واقف نہ ہونے کی بنا پر اکثر اوقات یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسیح کو سزا دینے میں
یہودی عدالت سینہیڈرن کا ہاتھ تھا جبکہ سینہیڈرن کو 40 ق م میں ہیرودیس نے ختم کر
دیا تھا اور 42 بعد از مسیح میں اگرپا اول نے دوبارہ اسکو قائم کیا۔۱؎یہ تاریخی واقعہ اس
بات کی شہادت ہے کہ مسیح کی صلیبی موت میں یہودی عدالت ملوث نہیں تھی تاہم ہم مزید
شہادتوں کو دیکھیں گے تاکہ تاریخی طور پر یہ پتا چلایا جا سکے کہ المسیح کی صلیبی
موت کے پیچھے کون سے محرکات اور عوامل کار فرما تھے۔
یروشلم کی یہودی مذہبی شرعی عدالت جیسے عدالت عظمی یا سنہڈرین کہا جاتا ہے، 722 افراد پر مشتمل ہوتی تھی نیز عدالت کی کارروائی سننے کیلئے یروشلم اور اسرائیل کے دوسرے علاقوں کے مدارس کے قابل طالبعلم موجود ہوتے تھے
یروشلم کی یہودی مذہبی شرعی عدالت جیسے عدالت عظمی یا سنہڈرین کہا جاتا ہے، 722 افراد پر مشتمل ہوتی تھی نیز عدالت کی کارروائی سننے کیلئے یروشلم اور اسرائیل کے دوسرے علاقوں کے مدارس کے قابل طالبعلم موجود ہوتے تھے
یروشلم کی یہودی مذہبی (شرعی) عدالت (عدالت عظمی)
722 افراد پر مشتمل ہوتی تھی نیز عدالت کی کارروائی سننے کیلئے یروشلم اور اسرائیل
کے دوسرے علاقوں کے مدارس کے قابل طالبعلم موجود ہوتے تھے۔۲؎
جبکہ اناجیل میں بیان کردہ واقعات کے مطابق سردار کاہن کیفا اور اسکے حامیوں نے مسیح کا مقدمہ رات کی تاریکی میں اپنے گھر پر سنا ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرع کے پابند علماء و ربائی کیسے سنہڈرین کے اصولوں کی دھجیاں اڑا رہے تھے اور انہیں روک ٹوک کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا؟ یہودی سنہڈرین تو رات کے وقت کوئی مقدمہ سن ہی نہیں سکتی تھی جبکہ انجیل کا مصنف اس مقدمہ کی کاروائی کو رات کے وقت دکھاتا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نامعلوم انجیل نویس یہودی سنہڈرین کے قوانین سے یکسر ناواقف ہے.
جبکہ اناجیل میں بیان کردہ واقعات کے مطابق سردار کاہن کیفا اور اسکے حامیوں نے مسیح کا مقدمہ رات کی تاریکی میں اپنے گھر پر سنا ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرع کے پابند علماء و ربائی کیسے سنہڈرین کے اصولوں کی دھجیاں اڑا رہے تھے اور انہیں روک ٹوک کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا؟ یہودی سنہڈرین تو رات کے وقت کوئی مقدمہ سن ہی نہیں سکتی تھی جبکہ انجیل کا مصنف اس مقدمہ کی کاروائی کو رات کے وقت دکھاتا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نامعلوم انجیل نویس یہودی سنہڈرین کے قوانین سے یکسر ناواقف ہے.
مقدمہ
یسوع میں کچھ بھی یہودی عدالت کے قانون کے مطابق نہ تھا جو کہ انجیل نویسوں کا
یہودی شرعی قوانین سے ناواقفیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مثلاً: یہودی عدالت میں تب
تک کوئی مقدمہ پیش نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ کوتوال٣؎ کے پاس ملزم کے جرم کے مکمل
ثبوت موجود نہ ہوں۔ یہ بھی ضروری تھا کہ ملزم کو قانون کا پتا ہو لا علمی کی صورت
میں قانون کا ملزم پر اختیار نہیں رہتا. یعنی جو کوئی کسی شخص پر مدعی ہو اس پر
لازم تھا کہ اس نے ملزم کو اس حوالہ سے انتباہ کر رکھا ہو کہ تمہارے اس فعل کیلئے
عدالت سزا دے سکتی ہے۔٤؎
کسی ایک بھی انجیلی مصنف نے ایسا بیان نہیں دیا کہ اس قسم کی تحقیقات عمل میں لائی گئی ہوں کہ شرعی کوتوال کو مسیح کے خلاف ثبوت فراہم کئے گئے، مدعیوں نے مسیح کے خلاف شرع افعال پر انکو انتباہ دی ہو ۔معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انجیل نویسوں کے مقصود اس قضیہ میں زیادہ سے زیادہ یہود دشمنی کا رنگ بھرنا تھا جس کی تکمیل کی خاطر انہوں نے یہودی شرعی امور کا بھی لحاظ نہ رکھا وگرنہ یسوع کے بظاہر خلاف شرع چھوٹے چھوٹے معاملات پر نکتہ چینی کرنے والے شرع کے علماء اور فقیہ کیسے خلاف شریعت افعال کا ارتکاب کر کے خود کو الہی عذاب کا حقدار بنا سکتے تھے؟
کسی ایک بھی انجیلی مصنف نے ایسا بیان نہیں دیا کہ اس قسم کی تحقیقات عمل میں لائی گئی ہوں کہ شرعی کوتوال کو مسیح کے خلاف ثبوت فراہم کئے گئے، مدعیوں نے مسیح کے خلاف شرع افعال پر انکو انتباہ دی ہو ۔معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انجیل نویسوں کے مقصود اس قضیہ میں زیادہ سے زیادہ یہود دشمنی کا رنگ بھرنا تھا جس کی تکمیل کی خاطر انہوں نے یہودی شرعی امور کا بھی لحاظ نہ رکھا وگرنہ یسوع کے بظاہر خلاف شرع چھوٹے چھوٹے معاملات پر نکتہ چینی کرنے والے شرع کے علماء اور فقیہ کیسے خلاف شریعت افعال کا ارتکاب کر کے خود کو الہی عذاب کا حقدار بنا سکتے تھے؟
المسیح
کے خلاف یہودی عدالت میں کوئی بھی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا جا سکا تھا کیونکہ
یسوع کا مقدمہ دراصل سیاسی نوعیت کا تھا جسے بعد ازاں مذہبی لبادہ پہنا کر پیش کیا
گیا. المسیح ہونے کا دعوی کرنا دراصل یہودی بادشاہ ہونے کا اعلان کرنا تھا اور علی
الاعلان ایسا مشتہر کرنا رومی سلطنت کے عتاب کو دعوت دینا تھا. یسوع کا زمانہ (جو
کہ 6ق م تا 33ق م) پر مشتمل ہے، یہ یکے بعد دیگرے اٹھنے والی یہودی شورشوں کا
زمانہ ہے اور یہ بغاوتیں یسوع کی موت کے بعد بھی جاری رہیں یہاں تک کہ سقوط یروشلم
کا سانحہ ہوگیا. رومی سلطنت نے جب سرکاری مذہب مسیحیت کو قرار دیا تو بعد کے لوگوں
نے اس زمانے کو پرامن بنا کر پیش کردیا تاکہ رومی حکومت کی خوشنودی حاصل کی جا سکے.
ایسی صورت حال میں کہ جب رومی جاسوس جگہ جگہ بکھرے ہوں، یہودی بادشاہ ہونے کا
اعلان کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا یہی وجہ تھی کہ یسوع کا سارا کلام نہ
صرف تمثیلی (Code
Words) ہوتا تھا بلکہ وہ اپنے متعلقین کو بھی منع فرماتے تھے کہ کسی سے
میرے متعلق ذکر مت کرنا. (متی 16:20)(مرقس 8:30) (لوقا 9:21)
یہی وجہ تھی کہ انجیل نویس کے مطابق جو مقدمہ پیش کیا گیا وہ یا تو سنی سنائی باتیں تھیں یا پھر یہ افواہوں پر تھا۔
یہی وجہ تھی کہ انجیل نویس کے مطابق جو مقدمہ پیش کیا گیا وہ یا تو سنی سنائی باتیں تھیں یا پھر یہ افواہوں پر تھا۔
یہ
بات بھی اہم تھی کہ عدالت میں بیٹھا منصف غیر جانب دار ہونا چاہیے اگر کوئی منصف
کسی بھی طور سے ملزم کے کیس کو بنانے، ثبوت فراہم کرنے یا اور کسی بھی طریقے سے
شامل رہا ہو تو وہ فیصلہ دینے کے لیے نہیں بیٹھ سکتا۔٥؎اس کے برعکس انجیل میں بیان
ہوا ہے کہ سردار کاہن نے یہودہ کو غداری پہ آمادہ کیا اور خود ہی گواہ کا کردار
بھی ادا کرنا چاہا (متی 59:26). کوئی بھی یہودی عدالت اس بات کی اجازت نہیں دے
سکتی تھی مگر اس کے باوجود انجیل نویس یہود دشمنی سے سرشار ہو کر ایک ایسے افسانے
کو تراشتا ہے جس کا وقوع سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا.
اس
کے علاوہ انجیلی بیان کے مطابق مسیح کا مقدمہ سردار کاہن کے گھر میں سنا گیا جو کہ
عدالتی قانون کی عدولی ہے کیونکہ کوئی بھی مقدمہ ہیکل میں موجود تراشیدہ پتھر والے
کمرے٦؎ (جو کہ عدالت کیلئے مخصوص تھا) ِہی سنا نہیں جا سکتا تھا۔٧؎ اس کے علاوہ
مسیح یسوع کو رات کے وقت پکڑ کر انکا مقدمہ و فیصلہ کر دیا گیا جو کہ عدلتی قوانین
کی سنگین خلاف ورزی تھی کیونکہ کسی بھی مقدمے کی سنوائی و پیروی رات کو عمل میں
نہیں لائی جا سکتی تھی۔ ( مشناہ سینہیڈرن 1:4)۔ اس کے علاوہ دوران مقدمہ ایک شخص
نے المسیح کو تھپڑ مارا جو کے عدالتی کارروائی کے خلاف ہے اور کسی حقیقی عدالت میں
اس شخص کو توہین عدالت کے جرم میں سزا ہو سکتی تھی
انجیل
نویس یہودی قوانین سے ناواقفیت کی بناء پر یہ دعوی کرتا ہے کہ یسوع کا مقدمہ
سنہڈرین کے بجائے کائفا کے گھر پر سنا گیا. ایسے فضول دعوے تاریخ کے ساتھ ساتھ
انجیلی حقائق کے بھی خلاف ہیں. اگر اس دعوے کو مانا بھی جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا
ہے کہ سردار کاہن کو یہ اختیار کس نے دے دیا کہ وہ سنہڈرین کا انعقاد کسی لوکل
کانفرنس کی طرح اپنے گھر پر کروا کر اور ملزم کو تھپڑ لگوا کر اس عدالت عظمی کے
شرعی تقدس کی پامالی کرے؟ اگر سردار کاہن رومی سلطنت کے مفادات کی خاطر ایک باغی
کو سزا دلانے کے لیے اتنا ہی اندھا ہوا جارہا تھا تو کیا باقی اراکین سنہڈرین کی
عقل بھی ہوا ہو چکی تھی؟
کسی
بھی عید سے پہلے یا عید والے دن مقدمے کی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی تاکہ
عید کا تقدس پامال نہ ہو اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یسوع کو عید فصح کے ایام میں
گرفتار و مصلوب کیا گیا ۔علاوہ ازیں دو کاتبوں کی موجودگی بھی ضروری تھی جو تمام
عدالتی کارروائی و دلائل کو درج کریں ( سینہیڈرن 36B) جب کہ یہ عید پر ممکن نہ تھا کیونکہ سبت پر یہودی مذہبی روایات کے
مطابق لکھنا منع تھا ( مشناہ سبت 2:7)۔عید پر عدالتی کارروائی کو منعقد کرنا عید
کی بے ادبی یا اسے نجس کرنا سمجھا جاتا تھا (مشناہ سینہیڈرن 1:4)۔کوئی بھی مقدمہ
عید سے پہلے شنوائی میں نہیں لایا جا سکتا تھا۔٨؎ مگر مقدمہ مسیح کی مد میں یہود
دشمنی سے معمور ہوکر انجیل نویس نہ صرف عدالتی روایات و قوانین٩؎ کو توڑتا گیا
بلکہ تحریری شرع کے قوانین کو بھی نام نہاد عدالتی کارروائی کے نام پر رسوا و
پامال کیا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے فصح آتے ہی سارے یہودی اندھے گونگے بہرے
ہو گئے تھے جو یسوع کی مصلوبیت سے قبل ہی شرعی قوانین کو سردار کاہن کے ہاتھوں
مصلوب ہوتا دیکھ رہے تھے اور کسی کو اس پامالی شریعت پر لب کشائی کی جرات نہیں
ہورہی تھی. بتیس سو سالہ یہودی تاریخ میں ایسے نرالے یہودی صرف اناجیل میں ہی پائے
جاتے ہیں. ایسا ہرگز نہیں ہے کہ سردار کاہن کا مقام یہودی زعماء و عوام الناس میں
صاحبِ اختیار کا تھا. اس متعلق معروف یہودی النسل کیتھولک اسکالر ہائم مکابی لکھتے
ہیں.
"وہ کاہن کو پیشوا یا روحانی رہنماء کی حیثیت نہیں دیتے تھے بلکہ ان کو محض رسوماتی عامل سمجھتے تھے جن کا کام ہیکل کے اندر قربانیوں کا عمل جاری رکھنا اور ہیکل کی عمومی دیکھ بھال کرنا تھا۔ یہاں تک کہ سردار کاہن کو بھی محض ایک عامل سمجھتے تھے جس کے پاس مذہبی امور پر بات کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ "
"وہ کاہن کو پیشوا یا روحانی رہنماء کی حیثیت نہیں دیتے تھے بلکہ ان کو محض رسوماتی عامل سمجھتے تھے جن کا کام ہیکل کے اندر قربانیوں کا عمل جاری رکھنا اور ہیکل کی عمومی دیکھ بھال کرنا تھا۔ یہاں تک کہ سردار کاہن کو بھی محض ایک عامل سمجھتے تھے جس کے پاس مذہبی امور پر بات کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ "
پھر
ہم پڑھتے ہیں کہ سردار کاہن نے کہا :
’’اِس پر سردار کاہِن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے کہ اُس نے کُفربکا ہے۔ اب ہم کو گواہوں کی کیا حاجت رہی؟ دیکھو تُم نے ابھی یہ کُفر سُنا ہے۔ تُمہاری کیا رائے ہے؟‘‘( متی 65:26)
یہ کسی بھی یہودی عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے جواب میں باقی منصفین نے کہا کہ:
’’اُنہوں نے جواب میں کہا وہ قتل کے لائِق ہے۔‘‘(57:26)
انجیل نویس کا یہودی علم الکلام سے ناواقفیت کا منہ بولتا ثبوت یہی قضیہ ہے صرف یہی نہیں بلکہ یہاں انجیل نویس کہانت جیسے عظیم فرض منصبی کے قوانین سے بھی نابلد نظر آتا ہے.
یہودی عدالتی کارروائی کے حوالے سے ایک نہایت دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں کبھی متفقہ فیصلہ نہیں ہوتا جیسا کہ مسیح یسوع کے مقدمہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سب ایک ہی زبان بول رہے تھے کہ یہ موت کا سزاوار ہے۔چونکہ یہودی عدالت میں وکیل نہیں ہوتا اس لیے منصف ہی دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں ایک جو ملزم کے مفادات کا دفاع کرتا اور دوسرا گروہ استغاثہ کا کام کرتا ۔بالفرض اگر ملزم کو ایسی سہولت میسر نہ آئے اور اس کے خلاف فیصلہ متفق ہو جائے جیسا کہ یسوع مسیح کے مقدمہ میں ہوا تو ملزم کو فوری طوربری کر دیا جاتا ( تالمود سینہیڈرن 72:12a)کیونکہ اس سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ عدالتی کارروائی نہیں بلکہ سازش ہے۔ سو اگر مسیح یسوع کا مقدمہ کسی حقیقی’’ یہودی شرعی عدالت‘‘ میں ہوا ہوتا تو وہ اُس ہی وقت بری ہو جاتے جب سب نے انکے خلاف متفقہ فیصلہ دیا تھا۔
انجیل نویس یقیناً یہودی عدالتی قوانین سے ناواقف تھا بلکہ اسے کہانت سے متعلق قوانین سے بھی شناسائی نہ تھی.اس صورتحال کا مظہر ہمیں اس وقت نظر آتا ہے جب انجیل نویس کائفا سردار کاہن کی بدترین تصویر کشی کرتا ہے اور
’’اِس پر سردار کاہِن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے کہ اُس نے کُفربکا ہے۔‘‘( متی 65:26)
جبکہ
’’اِس پر سردار کاہِن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے کہ اُس نے کُفربکا ہے۔ اب ہم کو گواہوں کی کیا حاجت رہی؟ دیکھو تُم نے ابھی یہ کُفر سُنا ہے۔ تُمہاری کیا رائے ہے؟‘‘( متی 65:26)
یہ کسی بھی یہودی عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے جواب میں باقی منصفین نے کہا کہ:
’’اُنہوں نے جواب میں کہا وہ قتل کے لائِق ہے۔‘‘(57:26)
انجیل نویس کا یہودی علم الکلام سے ناواقفیت کا منہ بولتا ثبوت یہی قضیہ ہے صرف یہی نہیں بلکہ یہاں انجیل نویس کہانت جیسے عظیم فرض منصبی کے قوانین سے بھی نابلد نظر آتا ہے.
یہودی عدالتی کارروائی کے حوالے سے ایک نہایت دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں کبھی متفقہ فیصلہ نہیں ہوتا جیسا کہ مسیح یسوع کے مقدمہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سب ایک ہی زبان بول رہے تھے کہ یہ موت کا سزاوار ہے۔چونکہ یہودی عدالت میں وکیل نہیں ہوتا اس لیے منصف ہی دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں ایک جو ملزم کے مفادات کا دفاع کرتا اور دوسرا گروہ استغاثہ کا کام کرتا ۔بالفرض اگر ملزم کو ایسی سہولت میسر نہ آئے اور اس کے خلاف فیصلہ متفق ہو جائے جیسا کہ یسوع مسیح کے مقدمہ میں ہوا تو ملزم کو فوری طوربری کر دیا جاتا ( تالمود سینہیڈرن 72:12a)کیونکہ اس سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ عدالتی کارروائی نہیں بلکہ سازش ہے۔ سو اگر مسیح یسوع کا مقدمہ کسی حقیقی’’ یہودی شرعی عدالت‘‘ میں ہوا ہوتا تو وہ اُس ہی وقت بری ہو جاتے جب سب نے انکے خلاف متفقہ فیصلہ دیا تھا۔
انجیل نویس یقیناً یہودی عدالتی قوانین سے ناواقف تھا بلکہ اسے کہانت سے متعلق قوانین سے بھی شناسائی نہ تھی.اس صورتحال کا مظہر ہمیں اس وقت نظر آتا ہے جب انجیل نویس کائفا سردار کاہن کی بدترین تصویر کشی کرتا ہے اور
’’اِس پر سردار کاہِن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے کہ اُس نے کُفربکا ہے۔‘‘( متی 65:26)
جبکہ
توریت
میں اس بات کا بیان ہے کہ:
"مُوسیٰ نے ہارُون اور اُس کے بیٹوں اِلیعزر اور اِتمر سے کہا کہ نہ تُمہارے سر کے بال بکھرنے پائیں اور نہ تُم اپنے کپڑے پھاڑنا"( احبار 6:10)
اور سردار کاہن کے لیے تو پابندی اور بھی سخت تھی:
" اور وہ جو اپنے بھائیوں کے درمِیان سردار کاہِن ہو جِس کے سر پر مَسح کرنے کا تیل ڈالا گیا اور جو پاک لِباس پہننے کے لِئے مخصُوص کِیا گیا وہ اپنے سر کے بال بِکھرنے نہ دے اور اپنے کپڑے نہ پھاڑے۔ وہ کِسی مُردہ کے پاس نہ جائے اور نہ اپنے باپ یا ماں کی خاطِر اپنے آپ کو نجس کرے۔"( احبار 10:21)
اس کے بعد انجیل نویس ایک اور افسانہ تراشتا ہے جہاں قاضی نے خود ملزم یعنی جناب مسیح سے پوچھا یعنی ان سے کہا گیا کہ وہ اقرار کر لیں۔ کسی بھی یہودی عدالت میں یہ ایک انتہائی سنگین غلطی ہے کیونکہ تالمود یہ بتاتی ہے کہ ’’کوئی شخص خود کو مجرم قرار نہیں دے سکتایا کسی شخص کی گواہی اپنے خلاف استعمال نہیں ہو سکتی۔‘‘
اور سب سے شاندار ثبوت کہ یہ پوری عدالتی کارروائی کا افسانہ ہی صرف فریب اور دھوکے کے سوا کچھ نہ تھا۔ جب المسیح کو پیلاطس کے حوالے کیا گیا تورات کی کارروائی کے بارے ایک حرف نہیں کہا گیا بلکہ حاکم کے سامنے مسیح یسوع پر صرف اور صرف بغاوت کا الزام لگایا گیا۔اور یہ بات نہیں کی گئی کہ المسیح نے کس مد میں کفر بولا ہے بلکہ رومی دربار میں صرف رومی حکومت اور قیصر کے خلاف بات کرنے کو بنیاد بنا کر صلیب کا مطالبہ کیا گیا جسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ رومی حکومت ریاستی باغیوں کو صلیب دیا کرتی تھی اور کسی بھی شخص کا المسیح ہونے کا ادعا دراصل حکومت وقت کے خلاف اعلان اور خود کو بادشاہ بنا کر پیش کرنا تھا. یسوع نے بھی یہی دعوی کیا مگر وہ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو سکے تو یہودیوں نے انکے دعوی کو کتاب مقدس کے خلاف پاکر انہیں بغاوت کے جرم میں حاکم وقت کے سامنے پیش کردیا. یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ یسوع کی پیلاطس کے دربار میں پیشی کے موقع پر سردار کاہن پیش پیش تھا اور یہ سردار کاہن خود رومیوں کی طرف سے مقرر کردہ تھا جس کا کام یہودی حریت پسندوں سے رومی سلطنت کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا یہی وجہ تھی کہ سردار کاہن کی شخصیت ہی بار بار اس موقع پر سامنے آتی ہے.
"مُوسیٰ نے ہارُون اور اُس کے بیٹوں اِلیعزر اور اِتمر سے کہا کہ نہ تُمہارے سر کے بال بکھرنے پائیں اور نہ تُم اپنے کپڑے پھاڑنا"( احبار 6:10)
اور سردار کاہن کے لیے تو پابندی اور بھی سخت تھی:
" اور وہ جو اپنے بھائیوں کے درمِیان سردار کاہِن ہو جِس کے سر پر مَسح کرنے کا تیل ڈالا گیا اور جو پاک لِباس پہننے کے لِئے مخصُوص کِیا گیا وہ اپنے سر کے بال بِکھرنے نہ دے اور اپنے کپڑے نہ پھاڑے۔ وہ کِسی مُردہ کے پاس نہ جائے اور نہ اپنے باپ یا ماں کی خاطِر اپنے آپ کو نجس کرے۔"( احبار 10:21)
اس کے بعد انجیل نویس ایک اور افسانہ تراشتا ہے جہاں قاضی نے خود ملزم یعنی جناب مسیح سے پوچھا یعنی ان سے کہا گیا کہ وہ اقرار کر لیں۔ کسی بھی یہودی عدالت میں یہ ایک انتہائی سنگین غلطی ہے کیونکہ تالمود یہ بتاتی ہے کہ ’’کوئی شخص خود کو مجرم قرار نہیں دے سکتایا کسی شخص کی گواہی اپنے خلاف استعمال نہیں ہو سکتی۔‘‘
اور سب سے شاندار ثبوت کہ یہ پوری عدالتی کارروائی کا افسانہ ہی صرف فریب اور دھوکے کے سوا کچھ نہ تھا۔ جب المسیح کو پیلاطس کے حوالے کیا گیا تورات کی کارروائی کے بارے ایک حرف نہیں کہا گیا بلکہ حاکم کے سامنے مسیح یسوع پر صرف اور صرف بغاوت کا الزام لگایا گیا۔اور یہ بات نہیں کی گئی کہ المسیح نے کس مد میں کفر بولا ہے بلکہ رومی دربار میں صرف رومی حکومت اور قیصر کے خلاف بات کرنے کو بنیاد بنا کر صلیب کا مطالبہ کیا گیا جسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ رومی حکومت ریاستی باغیوں کو صلیب دیا کرتی تھی اور کسی بھی شخص کا المسیح ہونے کا ادعا دراصل حکومت وقت کے خلاف اعلان اور خود کو بادشاہ بنا کر پیش کرنا تھا. یسوع نے بھی یہی دعوی کیا مگر وہ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو سکے تو یہودیوں نے انکے دعوی کو کتاب مقدس کے خلاف پاکر انہیں بغاوت کے جرم میں حاکم وقت کے سامنے پیش کردیا. یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ یسوع کی پیلاطس کے دربار میں پیشی کے موقع پر سردار کاہن پیش پیش تھا اور یہ سردار کاہن خود رومیوں کی طرف سے مقرر کردہ تھا جس کا کام یہودی حریت پسندوں سے رومی سلطنت کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا یہی وجہ تھی کہ سردار کاہن کی شخصیت ہی بار بار اس موقع پر سامنے آتی ہے.
یسوع
پر لگائے گئے الزامات کا جائزہ
آئیے
یسوع پر لگائے گئے کچھ الزامات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعی یہودی عقیدے کے
مطابق انکی کچھ حیثیت ہے کہ ان الزامات کی بنا پر کسی شخص کو سزا دی جاسکتی تھی ۔؟
• مسیح یسوع پر لگایا گیا ایک الزام متی 63:26 میں موجود ہے۔
’’سردار کاہِن نے اُس سے کہا مَیں تُجھے زِندہ خُدا کی قَسم دیتا ہُوں کہ اگر تُو خُدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔ یِسُوؔع نے اُس سے کہا تُو نے خُود کہہ دِیا بلکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اِس کے بعد تُم اِبنِ آدم کو قادِرِ مُطلِق کی دہنی طرف بَیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے۔ اِس پر سردار کاہِن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے کہ اُس نے کُفربکا ہے۔ اب ہم کو گواہوں کی کیا حاجت رہی؟ دیکھو تُم نے ابھی یہ کُفر سُنا ہے۔‘‘
اس آیت کے مطابق مسیح یسوع نے کفر کہا ہے، لیکن وہ کفر ہے کیا، کیا خدا کا بیٹا کہلانا کفر ہے؟ تو یہاں یہ بات واضح کرنی چاہیے کہ "خدا کے بیٹے" کی اصطلاح ہر یہودی پر لاگو ہوتی ہے بلکہ استثنا 1:14 کے مطابق جناب موسی نے سب سے پہلے اس اصطلاح کو تمام اسرائیل کے لیےاستعمال کیا۔
’’ تُم خداوند اپنے خدا کے فرزند ہو‘‘استثنا 1:14
بنی اسرائیل میں ہر نیک بندے کے لیے’’ خدا کے بیٹے‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ سو اگر یسوع نے ایسا کہا بھی تو یہ کوئی خلافِ شرع بات نہ تھی جو عدالت کی نظر میں سزا کے لائق ہوتی. دراصل یہاں انجیل نویس نے بدترین یہودی نفرت و دشمنی کا رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے اور عبرانی بائبل میں موجود حقائق کو بری طرح سے پامال کیا ہے. یسوع نے قاضیوں کی موجودگی میں انتہائی حلیمی سے خود کو ابن آدم پکارا اور خود کو ابن آدم کہنے میں کسی بھی یہودی شرعی عدالت کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا تھا تو پھر وہ کفر کہاں ہے جو انجیل نویس یہودی رہنما کیفا کے منہ میں ڈال کر پوری یہودی قوم کو یسوع کی تکذیب میں اول طور پر پیش کرتا ہے؟
کیا یہ کفر تھا کہ ابن آدم کبریا( یونانی dunamiss جس کا ترجمہ طاقت کیا گیا ہے) کے دائیں جانب ہو گا؟
کیفا نے خود سے اندازہ لگا لیا کہ یسوع اگر اپنے سیاسی مشن میں کامیاب ہوگیا تو پھر یہ اقتدار حاصل کرلے گا اور یہودی بجائے انکے( سردار کاہن کے گروہ کے) یسوع کو اپنا نمائندہ چن لیں گے جو انکے اختیارات کے لیے خطرناک ہو سکتا تھا۔
لفظ "طاقت" ارامی زبان میں دو معنی رکھتا ہے ایک استعاراتی طور پر رب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور دوسرا literal معنی رکھتا ہے یعنی اختیار والوں یا حکومت کے لیے. یہودیوں کے لیے یہ ایک کفر تھا کہ حکومت، طاقت و اختیار کو خدا کے علاوہ کسی سے منسوب کرے اور یسوع نے بھی وہی بات تمثیلی انداز میں کہی جس کے بعد سردار کاہن حق بجانب تھا کہ وہ یسوع پر کفر گوئی کا الزام عائد کرتا. رومی بت پرستوں کو تو یہودی محاورات و تماثیل سے کچھ واقفیت نہ تھی مگر کائفا تو خود شریعت کا عالم تھا اس نے فورا یسوع کی تمثیلی بات کو سمجھ لیا کہ جو کفر سنہڈرین میں ثابت نہ ہو سکا وہ یہاں سب کے سامنے ظاہر ہوگیا.تبھی اس نے سزا کا مطالبہ کردیا. باقی گریبان پھاڑنے اور چیخنے چلانے کا سارا افسانہ فضول اور یاوہ گوئی پر مشتمل ہے.
• مسیح یسوع پر لگایا گیا ایک الزام متی 63:26 میں موجود ہے۔
’’سردار کاہِن نے اُس سے کہا مَیں تُجھے زِندہ خُدا کی قَسم دیتا ہُوں کہ اگر تُو خُدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔ یِسُوؔع نے اُس سے کہا تُو نے خُود کہہ دِیا بلکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اِس کے بعد تُم اِبنِ آدم کو قادِرِ مُطلِق کی دہنی طرف بَیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے۔ اِس پر سردار کاہِن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے کہ اُس نے کُفربکا ہے۔ اب ہم کو گواہوں کی کیا حاجت رہی؟ دیکھو تُم نے ابھی یہ کُفر سُنا ہے۔‘‘
اس آیت کے مطابق مسیح یسوع نے کفر کہا ہے، لیکن وہ کفر ہے کیا، کیا خدا کا بیٹا کہلانا کفر ہے؟ تو یہاں یہ بات واضح کرنی چاہیے کہ "خدا کے بیٹے" کی اصطلاح ہر یہودی پر لاگو ہوتی ہے بلکہ استثنا 1:14 کے مطابق جناب موسی نے سب سے پہلے اس اصطلاح کو تمام اسرائیل کے لیےاستعمال کیا۔
’’ تُم خداوند اپنے خدا کے فرزند ہو‘‘استثنا 1:14
بنی اسرائیل میں ہر نیک بندے کے لیے’’ خدا کے بیٹے‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ سو اگر یسوع نے ایسا کہا بھی تو یہ کوئی خلافِ شرع بات نہ تھی جو عدالت کی نظر میں سزا کے لائق ہوتی. دراصل یہاں انجیل نویس نے بدترین یہودی نفرت و دشمنی کا رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے اور عبرانی بائبل میں موجود حقائق کو بری طرح سے پامال کیا ہے. یسوع نے قاضیوں کی موجودگی میں انتہائی حلیمی سے خود کو ابن آدم پکارا اور خود کو ابن آدم کہنے میں کسی بھی یہودی شرعی عدالت کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا تھا تو پھر وہ کفر کہاں ہے جو انجیل نویس یہودی رہنما کیفا کے منہ میں ڈال کر پوری یہودی قوم کو یسوع کی تکذیب میں اول طور پر پیش کرتا ہے؟
کیا یہ کفر تھا کہ ابن آدم کبریا( یونانی dunamiss جس کا ترجمہ طاقت کیا گیا ہے) کے دائیں جانب ہو گا؟
کیفا نے خود سے اندازہ لگا لیا کہ یسوع اگر اپنے سیاسی مشن میں کامیاب ہوگیا تو پھر یہ اقتدار حاصل کرلے گا اور یہودی بجائے انکے( سردار کاہن کے گروہ کے) یسوع کو اپنا نمائندہ چن لیں گے جو انکے اختیارات کے لیے خطرناک ہو سکتا تھا۔
لفظ "طاقت" ارامی زبان میں دو معنی رکھتا ہے ایک استعاراتی طور پر رب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور دوسرا literal معنی رکھتا ہے یعنی اختیار والوں یا حکومت کے لیے. یہودیوں کے لیے یہ ایک کفر تھا کہ حکومت، طاقت و اختیار کو خدا کے علاوہ کسی سے منسوب کرے اور یسوع نے بھی وہی بات تمثیلی انداز میں کہی جس کے بعد سردار کاہن حق بجانب تھا کہ وہ یسوع پر کفر گوئی کا الزام عائد کرتا. رومی بت پرستوں کو تو یہودی محاورات و تماثیل سے کچھ واقفیت نہ تھی مگر کائفا تو خود شریعت کا عالم تھا اس نے فورا یسوع کی تمثیلی بات کو سمجھ لیا کہ جو کفر سنہڈرین میں ثابت نہ ہو سکا وہ یہاں سب کے سامنے ظاہر ہوگیا.تبھی اس نے سزا کا مطالبہ کردیا. باقی گریبان پھاڑنے اور چیخنے چلانے کا سارا افسانہ فضول اور یاوہ گوئی پر مشتمل ہے.
• اس کے علاوہ ایک گواہ نے یہ الزام لگایا کہ اس نے کہا تھا کہ اس
مقدس کو ڈھا دو تو میں تین دن میں اسے کھڑا کر دو گا. بظاہر تو اس میں کوئی ایسی
بات نہیں پائی جاتی جو یہودی عدالتی قوانین کے مطابق سزائے موت کی وجہ بنے لیکن
یہودی تاریخ سے ادنی سی واقفیت یسوع کے اس ایک جملے کے پیچھے چھپے اصل مدعا کو
سامنے لے آتی ہے. جب ہم یسوع کو بحیثیت فریسی ربائی دیکھتے ہیں تو یسوع کے کلام کی
تفہیم کا درست ادراک بھی کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے یہ جاننا بھی نہایت ضروری ہے
کہ فریسی کون تھے اور وہ کس نظریات کے حامل تھے. یہ سب بحث یہاں نہیں کی جا سکتی
ہے لہذا ہم یہاں مطمع نظر بات پر ہی کلام کریں گے.
یسوع کے وقت میں موجود ہیکل رومیوں کا تعمیر کردہ تھا اور فریسی علماء کو یہ ہرگز برداشت نہیں تھا کیونکہ رومی بت پرستوں نے اپنا نشان عقاب کو ہیکل کے دروازے پر نصب کیا ہوا تھا جس کے نتیجے میں دخول ہیکل کے وقت ہر یہودی کواس کے نیچے سے گزرنا پڑتا تھا اور اس کے نیچے سے گزرنے کا مطلب رومی بت پرست بادشاہ کی حاکمیت کو قبول کرنا تھا جو کہ موحد اور حریت پسند یہودیوں کے لیے سوہانِ روح سے کم نہ تھا اسی وجہ سے فریسی علماء کا نظریہ یہ تھا کہ مسیح موعود نے آکر رومیوں کے بنائے ہیکل کو ڈھا دینا ہے اور اس کی جگہ نیا ہیکل تعمیر کرنا ہے. یسوع کا ہیکل ڈھانے کی بابت گفتگو کرنا دراصل اسی فریسی نظریہ کے مطابق یہودیوں کو تسلی دینا تھا لیکن یسوع کی اس بات کے ساتھ تین دن بعد کا دم چھلا اس وقت لگایا گیا جب پولوسی نظریات مسیحیت میں جڑ پکڑ گئے اور یسوع کا مردوں میں سے جی اٹھنے کا افسانہ مشرک اقوام میں عام ہوگیا. پیلاطس کے دربار میں یسوع کی مجرمانہ خاموشی ہرگز اسے ان الزامات سے بری نہیں کرتی جو کہ یہودی اس پر لگا رہے تھے بلکہ یہودی علم الکلام کے مطابق یہودی بالکل درست مؤقف پر تھے.
یسوع کے وقت میں موجود ہیکل رومیوں کا تعمیر کردہ تھا اور فریسی علماء کو یہ ہرگز برداشت نہیں تھا کیونکہ رومی بت پرستوں نے اپنا نشان عقاب کو ہیکل کے دروازے پر نصب کیا ہوا تھا جس کے نتیجے میں دخول ہیکل کے وقت ہر یہودی کواس کے نیچے سے گزرنا پڑتا تھا اور اس کے نیچے سے گزرنے کا مطلب رومی بت پرست بادشاہ کی حاکمیت کو قبول کرنا تھا جو کہ موحد اور حریت پسند یہودیوں کے لیے سوہانِ روح سے کم نہ تھا اسی وجہ سے فریسی علماء کا نظریہ یہ تھا کہ مسیح موعود نے آکر رومیوں کے بنائے ہیکل کو ڈھا دینا ہے اور اس کی جگہ نیا ہیکل تعمیر کرنا ہے. یسوع کا ہیکل ڈھانے کی بابت گفتگو کرنا دراصل اسی فریسی نظریہ کے مطابق یہودیوں کو تسلی دینا تھا لیکن یسوع کی اس بات کے ساتھ تین دن بعد کا دم چھلا اس وقت لگایا گیا جب پولوسی نظریات مسیحیت میں جڑ پکڑ گئے اور یسوع کا مردوں میں سے جی اٹھنے کا افسانہ مشرک اقوام میں عام ہوگیا. پیلاطس کے دربار میں یسوع کی مجرمانہ خاموشی ہرگز اسے ان الزامات سے بری نہیں کرتی جو کہ یہودی اس پر لگا رہے تھے بلکہ یہودی علم الکلام کے مطابق یہودی بالکل درست مؤقف پر تھے.
حاصلِ
تحریر
الغرض یسوع پر لگائے گئے سارے الزامات مذہبی کے بجائے سیاسی تھے اور رومی قانون کی نظر میں بغاوت کے جرم کے مترادف تھے. یہی وجہ تھی کہ یہودیوں نے ایسے انسان کو صلیب پر چڑھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جس نے یہ کہہ کر ان کی آرزو و امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا کہ میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں.
یاد رہے کہ انجیل نویس نے یسوع کی مصلوبیت کا مجرم اجتماعی طور پر تمام یہودی قوم کو قرار دیا ہے. انجیل نویس متی لکھتا ہے.
سب لوگوں نے جواب میں کہا اِس کا خُون ہماری اور ہماری اَولاد کی گردن(متی 27:266)
الغرض یسوع پر لگائے گئے سارے الزامات مذہبی کے بجائے سیاسی تھے اور رومی قانون کی نظر میں بغاوت کے جرم کے مترادف تھے. یہی وجہ تھی کہ یہودیوں نے ایسے انسان کو صلیب پر چڑھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جس نے یہ کہہ کر ان کی آرزو و امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا کہ میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں.
یاد رہے کہ انجیل نویس نے یسوع کی مصلوبیت کا مجرم اجتماعی طور پر تمام یہودی قوم کو قرار دیا ہے. انجیل نویس متی لکھتا ہے.
سب لوگوں نے جواب میں کہا اِس کا خُون ہماری اور ہماری اَولاد کی گردن(متی 27:266)
انجیل
نویس یسوع کے مقدمہ کے افسانے میں یہود دشمنی کا ایسا رنگ بھرتا ہے کہ یسوع کی
مخالفت میں سارے یہودی کردار یکے بعد دیگرے ساتھ آتے ہیں گویا کہ اس کہانی کا
مرکزی حصہ یہی ہو. اس مقام پر تمام معاصرین یسوع یہودیوں کی منظر کشی کچھ اس طرح
سے کی گئی ہے کہ کاہن اعظم، صدوقی، فریسی اپنے متبعین سمیت، انقلابی شدت پسند،
ہیرودیئن اور کثیر تعداد یہودی سب یسوع کی دشمنی میں متحد نظر آتے ہیں. انجیل نویس
کی یہود دشمن طبیعت اس بات کا بھی جواب نہیں دیتی کہ اس موقع پر وہ سارا مجمع کدھر
غائب ہو گیا تھا جو یسوع کے یروشلم میں داخلے کے وقت کھجور کی شاخیں لہرا لہرا کر
ان سے وفاداری کا عہد کررہا تھا؟
خیر
اندیش
تحقیق: عبداللہ غازی
تحقیق: عبداللہ غازی
۱؎ :
بابلی تالمود،بابا بترا: ۳۔الف، جوئیش انسائیکلوپیڈیا مضمون ہیرودیس۔’’جوئش
ہیسٹری‘‘گیریٹز،جلد نمبر ۲ ، باب نمبر ۴
۲؎: جوئش انسائیکلوپیڈیا مضمون سنہیڈرن
٣٣؎: عبرانی لفظ ہذان کا ترجمہ کوتوال کیا گیا ہے ۔ یہ شرعی عدالت کا انسپکٹر ( دروغہ ) تھا جسکی ذمہ داری ہوتی تھی کے ملزم کو ثبوت ملنے کے بعد تفتیش و تحقیق کرکے شرعی عدالت کے سامنے پیش کرے۔
٤؎ : سینہڈرن:۸ :ب، ۴۱ :الف، ۷۲:ب، ۸۰۰:ب/دی ٹرائل آف جیزز فرام جوئش سورسز ، ربی اے ۔ پی ڈریوکر، بلوچ پبلشنگ کمپنی نیویارک ۱۹۰۷،صفحہ نمبر ۶
٥٥؎:دی ٹرائل آف جیزز فرام جوئش سورسز ، ربی اے ۔ پی ڈریوکر، بلوچ پبلشنگ کمپنی نیویارک ۱۹۰۷،صفحہ نمبر ۷
٦؎ انگریزی لفظ ’’Hewn Chamber‘‘ کا ترجمہ
٧؎: سینہڈرن۸۶ب اور ۸۸۸ ب/ دی ٹرائل آف جیزز فرام جوئش سورسز ، ربی اے ۔ پی ڈریوکر، بلوچ پبلشنگ کمپنی نیویارک ۱۹۰۷،صفحہ نمبر ۸
٨؎: سینہیڈرن 1:4
٩٩؎ : تالمودی قوانین جنکو توراہ شبل پے کہا جاتا ہے ۔
۲؎: جوئش انسائیکلوپیڈیا مضمون سنہیڈرن
٣٣؎: عبرانی لفظ ہذان کا ترجمہ کوتوال کیا گیا ہے ۔ یہ شرعی عدالت کا انسپکٹر ( دروغہ ) تھا جسکی ذمہ داری ہوتی تھی کے ملزم کو ثبوت ملنے کے بعد تفتیش و تحقیق کرکے شرعی عدالت کے سامنے پیش کرے۔
٤؎ : سینہڈرن:۸ :ب، ۴۱ :الف، ۷۲:ب، ۸۰۰:ب/دی ٹرائل آف جیزز فرام جوئش سورسز ، ربی اے ۔ پی ڈریوکر، بلوچ پبلشنگ کمپنی نیویارک ۱۹۰۷،صفحہ نمبر ۶
٥٥؎:دی ٹرائل آف جیزز فرام جوئش سورسز ، ربی اے ۔ پی ڈریوکر، بلوچ پبلشنگ کمپنی نیویارک ۱۹۰۷،صفحہ نمبر ۷
٦؎ انگریزی لفظ ’’Hewn Chamber‘‘ کا ترجمہ
٧؎: سینہڈرن۸۶ب اور ۸۸۸ ب/ دی ٹرائل آف جیزز فرام جوئش سورسز ، ربی اے ۔ پی ڈریوکر، بلوچ پبلشنگ کمپنی نیویارک ۱۹۰۷،صفحہ نمبر ۸
٨؎: سینہیڈرن 1:4
٩٩؎ : تالمودی قوانین جنکو توراہ شبل پے کہا جاتا ہے ۔