حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقعہ
صلیب کے تقریبا پینتیس سال بعد رومیوں نے
یروشلم پر حملہ کردیا اور پورے شہر کو تباہ برباد کرکے رکھ دیا،عورتوں اور مردوں
،بچوں اور بوڑھوں کو بے دریغ قتل کیا گیا(بحوالہ بنی
اسرائیل کی تاریخ،کیتھولک سلسلہ تفسیر) حتی کہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ یروشم کا قصبہ گلیل میں
واقع جھیل لاشوں سے بھر گئی اور سرخ ہوگئی،،اس بڑے پیمانے پر قتل وغارت گردی ہوئی
کہ اس زمانے کی تاریخ ہی عنقاء ہوگئی کیونکہ لوگوں کو تو اپنی جان بچانے کے لالے
پڑے ہوئے تھے اور ایسے حالات میں تاریخ کو لکھنے کی حماقت کون عقل مند کرتا ہے؟
،،عیسیٰ علیہ السلام سے متعلقہ افراد اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی مبارک آنکھوں سے اللہ کے اس برگذیدہ اور جلیل القدر پیغمبر کی زیارت کی،وہ بھی اس فساد کی نذر ہوگئے،،اس زمانے کی تاریخ تو ہوگئی ختم،،جو کچھ بچے کچھے لوگ تھے انہوں نے اپنی طرف سے باتیں گھڑ کر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا شروع کردئیےاوررفتہ رفتہ بھانت بھانت کے واقعات اور دیومالائی داستانیں عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہوگئیں۔ مروجہ اناجیل اربعہ بھی انہی من گھڑت روایات کی پیداوار ہے کیونکہ ان میں جن واقعات و عقائد کا انتساب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب ہے بعینہ وہی واقعات قدیم بت پرستوں کے دیوتاؤں کے ساتھ بھی واقع ہوئے ہیں۔مثلاً بعل دیوتا کو بھی خدا کا بیٹا کہا جاتا تھا،اسکو بھی مصلوب کیا گیا اور وہ تین دن بعد مردوں میں سے جی اٹھا ،اسی طرح یہی کہانی ہندودیوتا کرشنا سے بھی منسوب ہے ۔اگر ہم مقدس گوگل کی مدد لیں اور اس پر the sixteen saviour لکھ کر تلاش کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا کی تاریخ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قبل سولہ ایسی ہستیاں گزر چکی ہیں جن کے ساتھ وہی واقعات پیش آئے جو انجیل نویسوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام سے پیش کئے ہیں ۔صرف یہی نہیں بلکہ مروجہ انجیل میں مرقوم پہاڑی وعظ (جوکہ مسیحی تعلیمات میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے)ہزاروں سال قبل بدھ مت کی تعلیمات سے مسروقہ ہے،نیز یہی پہاڑی وعظ وادی قمران سے دریافت ہونے والے دوسو قبل مسیح کے صحف میں بھی موجود ہے،یعنی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیدائش سے قبل بھی یہ تعلیمات موجود تھیں جو بعد ازاں جھوٹ بول کر ان کے نام سے پیش کردی گئیں۔ان تمام حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ مروجہ عیسائیت کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بت پرستی کا ایسا سلسلہ ہے جو الہام کے نام پر پیش کرکے لوگوں کو دھوکہ دیا جاتاہے۔
،،عیسیٰ علیہ السلام سے متعلقہ افراد اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی مبارک آنکھوں سے اللہ کے اس برگذیدہ اور جلیل القدر پیغمبر کی زیارت کی،وہ بھی اس فساد کی نذر ہوگئے،،اس زمانے کی تاریخ تو ہوگئی ختم،،جو کچھ بچے کچھے لوگ تھے انہوں نے اپنی طرف سے باتیں گھڑ کر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا شروع کردئیےاوررفتہ رفتہ بھانت بھانت کے واقعات اور دیومالائی داستانیں عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہوگئیں۔ مروجہ اناجیل اربعہ بھی انہی من گھڑت روایات کی پیداوار ہے کیونکہ ان میں جن واقعات و عقائد کا انتساب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب ہے بعینہ وہی واقعات قدیم بت پرستوں کے دیوتاؤں کے ساتھ بھی واقع ہوئے ہیں۔مثلاً بعل دیوتا کو بھی خدا کا بیٹا کہا جاتا تھا،اسکو بھی مصلوب کیا گیا اور وہ تین دن بعد مردوں میں سے جی اٹھا ،اسی طرح یہی کہانی ہندودیوتا کرشنا سے بھی منسوب ہے ۔اگر ہم مقدس گوگل کی مدد لیں اور اس پر the sixteen saviour لکھ کر تلاش کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا کی تاریخ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قبل سولہ ایسی ہستیاں گزر چکی ہیں جن کے ساتھ وہی واقعات پیش آئے جو انجیل نویسوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام سے پیش کئے ہیں ۔صرف یہی نہیں بلکہ مروجہ انجیل میں مرقوم پہاڑی وعظ (جوکہ مسیحی تعلیمات میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے)ہزاروں سال قبل بدھ مت کی تعلیمات سے مسروقہ ہے،نیز یہی پہاڑی وعظ وادی قمران سے دریافت ہونے والے دوسو قبل مسیح کے صحف میں بھی موجود ہے،یعنی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیدائش سے قبل بھی یہ تعلیمات موجود تھیں جو بعد ازاں جھوٹ بول کر ان کے نام سے پیش کردی گئیں۔ان تمام حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ مروجہ عیسائیت کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بت پرستی کا ایسا سلسلہ ہے جو الہام کے نام پر پیش کرکے لوگوں کو دھوکہ دیا جاتاہے۔
اس بات کا کلیسیاء کو بھی اقرار ہے
کہ ہمارے پاس یسوع المسیح کے بالکل درست الفاظ کا ریکارڈ ہی موجود نہیں ہے۔(بحوالہ
معتدبہ کلام مقدس، پاکستان بائبل سوسائٹی)کیونکہ فتنوں اور فسادوں کی وجہ سے عیسیٰ
علیہ السلام کے متعین بھی تتربتر ہوگئے۔جب کچھ امن وامان قائم ہواتوعیسائی بھی
مجتمع ہونا شروع ہوگئے۔اس وقت عیسائیوں کے معاندین میں سرفہرست دو لوگ تھے ایک
یہودی اور دوسرے رومی۔ یہودی طاقت تو ہیکل کی تباہی کے بعد ختم ہوچکی تھی مگر
رومیوں کی طرف سے عیسائیوں کی ایذاں رسانی کا سلسلہ جاری تھا۔ان سب حالات کے ساتھ
ساتھ عیسائیوں میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ جاری تھا۔اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے
بعد عیسائیوں میں بے شمار فرقے وجود میں آچکے تھے مگر بنیادی اعتبار سے ان کو دو
حصوں میں تقسیم کی جاسکتا ہے۔
ایک عیسائی تو وہ تھے جوپکے تثلیثی
مشرک تھے اور سینٹ پولس کی تعلیمات پر عمل پیرا تھے بعد میں اسی پولوسی مسیحیت کو
رومی حکومت کے جھنڈے تلے سیاسی اغراض کی بناء پر پناہ مل گئی اور پھر انہوں نے
اپنے مخالفین کا استحصال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوٹی۔دوسرا گروہ میں شامل عیسائی
پکے مؤحد تھے اور ان کے پاس عیسیٰ علیہ
السلام کی کچھ نہ کچھ تعلیمات زبانی روایات کے ذریعے موجود تھیں۔یہ لوگ پولوسی
مسیحیوں سے ان کے مشرکانہ عقائد کی وجہ سے شدید اختلاف رکھتے تھے اور پولوسی مسیحی
بھی ان توحیدی عیسائیوں کو ملعون سمجھتے تھے کیونکہ مقدس پولس نے خود اپنے خط میں
لکھا ہے کہ "اگرہم یا آسما ن کا کوئی فرشتہ بھی اس انجیل کے سوا جو ہم نے
تمہیں سنائی کوئی اور انجیل تمہیں سنائے تو وہ خدا کی طرف سے ملعون ہو۔(گلتیوں1:8)مقدس
پولس کے ان دونوں گروہوں کے درمیان ہونے والی رسہ کشی واضح ہوجاتی ہے اور یہ بھی
پتہ چل جاتا ہے کہ توحیدی عیسائی بھی اصل عیسائیت کی تبلیغ میں مصروف تھے اور ان
کے پاس بھی انجیل تھی جس پر کان دھرنے والوں کو مقدس پولس نے لعنتی قرار دے دیا۔
یہی وہ توحیدی عیسائی تھے جو تثلیث کے بجائے خدائے واحد کو ایک مان کر اس کی عبادت کرتے تھے۔نقائیہ
کونسل کے بعد مسیحیوں نے ان کا استحصال کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی،ان کی کتب کو
نذرآتش کیا،ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے اور اس طرح سے یہ مؤحد عیسائی بلادعرب
میں پھیل گئے اور نبی آخرالزماں کا انتظار کرنے لگے جن کے آنے کی بشارت سیدناعیسیٰ
علیہ السلام اپنی لسان مبارک سے دے چکے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
ولات باسعادت کے موقع پر اطراف عرب میں یہی توحیدی عیسائی ہی آباد تھے جو انجیل
(عیسیٰ علیہ السلام کی وہ انجیل جو زبانی روایات کے ذریعے ان تک پہنچی) میں موجود
نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کو
پہچان کر جوق درجوق اسلام میں داخل ہوگئے اور ہجرت حبشہ کے موقع پر یہی لوگ ناصرین
ِمسلمین بنے کیونکہ یہ لوگ حق پہچان چکے تھے یہی وجہ ہے کہ جب مشرکین مکہ کا وفد
ان لوگوں کو حبشہ سے دربدر کرانے کی سازش کرکے حبشہ پہنچا تو نجاشی بادشاہ نے
مسلمانوں کو طلب کیا اور ان کےنبی آخرالزماں کے متعلق سوالات کئے جن کے جواب میں
حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے ایسی پراثر تقریر کی کہ بادشاہ کا دل نرم ہوگیا
اور پھر جب بادشاہ کی فرمائش پر انہوں نے سورۃ مریم کی آیات جلیلہ کی تلاوت کرنا
شروع کی تو نجاشی اس قدر رویا کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی۔نجاشی کے دربار میں اُس وقت
عیسائیوں کے بڑے بڑے اساقف(بشپ) بھی موجود تھے وہ بھی حضرت جعفررضی اللہ عنہ کی
تقریر وتلاوت سن کے ایسا روئے ان کے پاس موجود صحائف مقدسہ تک ان آنسوؤں سے بھیگ
گئے۔پھر نجاشی نے کہا کہ یہ کلام اور وہ کلام جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام لے کر آئے
دونوں ایک ہی شمعدان سے نکلے ہیں اور پھر اس مؤحد بادشاہ نے کفار مکہ کو اپنے
دربار سے نکال دیا اور اسلام لے آیا(بحوالہ الرحیق المختوم،مولاناصفی الرحمن مبارک
پوری)
یہی وہ عیسائی تھے جن کی تعریف میں
رب العالمین نے بھی اپنا قرآن عظیم نازل فرمادیا۔
لتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَة
لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُواْ وَلَتَجِدَنَّ
أَقْرَبَهمْ مَّوَدَّة لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ قَالُوَاْ إِنَّا نَصَارَی
ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهمْ قِسِّيسِينَ وَرُهبَانًا وَأَنَّهمْ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ
﴿82﴾ وَإِذَا سَمِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَی
الرَّسُولِ تَرَی أَعْيُنَهمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُواْ مِنَ
الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهدِينَ ﴿83﴾ وَمَا
لَنَا لاَ نُؤْمِنُ بِاللّه وَمَا جَاءنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَن
يُدْخِلَنَا رَبَّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ ﴿84﴾ (سورۃ المائدہؒ:رقم الایۃ
82 تا 84)
ترجمہ: تو سب لوگوں سے زیادہ مسلمانوں کا دشمن یہودیوں
اور مشرکوں کو پائے گا اور تو سب سے نزدیک محبت میں مسلمانوں سے ان لوگوں کو پائے
گا جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس
لیے کہ ان میں علماء اور فقراء ہیں اور اس لیے کہ وہ تکبر نہیں کرتے ۔اور جب اس
چیز کو سنتے ہیں جو رسول پر اتری تو ان کی
آنکھوں کو دیکھے گا کہ آنسوؤں سے بہتی ہیں اس لیے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا
کہتے ہیں اے رب ہمارے کہ ہم ایمان لائے تو ہمیں ماننے والوں کے ساتھ لکھ لے ۔اور
ہمیں کیا ہے ہم اللہ پر ایمان نہ لائیں اور اس چیز پر جو ہمیں حق سے پہنچی ہے اور اس کی طمع رکھتے ہیں
کہ ہمیں ہمارا رب نیکوں میں داخل کر ے گا۔
دوسری طرف پولوسی مسیحی گروہ تھا جو
اپنی ہٹ دھرمی ،کفر اور عناد کی وجہ سے حق کا انکار کرتارہا حالانکہ یہ لوگ بھی حق
کو پہچانتے تھے اور نبی آخرالزماں کے منتظر تھے۔قرآن کریم ان کے بارے میں فرماتا
ہے۔
وَكَانُـوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّـذِيْنَ كَفَرُوْاۚ فَلَمَّا جَآءَهُـمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ ۚ فَلَعْنَةُ اللّـٰهِ عَلَى الْكَافِـرِيْنَ(سورۃ البقرۃ رقم الایۃ89)
اور اس سے پہلے وہ کفار پر فتح مانگا کرتے تھے، پھر جب ان کے پاس وہ آیا جسے انہوں نے پہچان لیا تو اس کا انکار کیا، سو کافروں پر اللہ کی لعنت ہے۔
وَكَانُـوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّـذِيْنَ كَفَرُوْاۚ فَلَمَّا جَآءَهُـمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ ۚ فَلَعْنَةُ اللّـٰهِ عَلَى الْكَافِـرِيْنَ(سورۃ البقرۃ رقم الایۃ89)
اور اس سے پہلے وہ کفار پر فتح مانگا کرتے تھے، پھر جب ان کے پاس وہ آیا جسے انہوں نے پہچان لیا تو اس کا انکار کیا، سو کافروں پر اللہ کی لعنت ہے۔
یہی
مسیحی اہل نجران بھی تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مناظرہ کرنے کے لئے
مدینہ عالیہ آئے اور پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے مناظرہ شروع کیا اور اللہ رب العزت
سورۃ آل عمران اتارتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ مسیحی دلائل میں عاجز آگئے مگر حق پھر
بھی قبول نہیں کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہٹ دھڑمی اور کٹ حجتی دیکھتے
ہوئے آیت مباہلہ بھی نازل فرمادی کہ اگر دلائل سے بات کو نہیں مانتے تو آجاؤ خدا
کی عدالت سے ہی فیصلہ کرا لو۔
َفَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ
مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا
وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ
نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (61)
ترجمہ: پیغمبر علم كے آجانے
كے بعد جو لوگ تم سے كٹ حجتى كريں ان سے كہہ ديجئے كہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند
،اپنى اپنى عورتوں اور اپنے نفسوں كو بلائيں او رپھر خدا كى بارگاہ ميں دعا كريں
او رجھوٹوں پر خدا كى لعنت قرا رديں _
مگر یہ پولوسی مسیحی اپنے کفر پر
قائم رہے اور پیغمبراسلام ﷺ سے مناظرہ کے بعد مباہلہ تک کے لئے تیار ہوگئے۔صبح کو
جب رسول اللہ ﷺ اپنی آل اولاد کے ساتھ میدان کی طرف نکلے اور یہ مسیحی اساقف بھی
صف باندھ کر رسول اللہﷺ کے سامنے کھڑے ہوئے تو اساقف (بشپ)کے سردار نے اپنے
ساتھیوں سے کہا کہ تم جانتے ہو کہ محمدﷺ سچے اور برحق نبی ہیں اور جس قوم نے اپنے
نبی سے مباہلہ کیا وہ ہلاک ہوئی ہے۔ان مقربان الٰہی چہروں سے مباہلہ کرنے سے
بچو۔خدا کی قسم میں دیکھتا ہوں کہ اگر یہ دعا کریں گے تو خدائے تعالیٰ پہاڑوں کو
بھی ان کے کہنے پر ہٹا دے گا۔اب اگر تم میری بات نہیں مانتے اور مباہلہ کرتے ہو تو
یاد رکھو روئے زمین پر پھر ایک بھی مسیحی زندہ نہیں بچے گا۔اسقف اعظم کے ساتھیوں
نے جب یہ سنا تو ان کی عقل بھی ٹھکانے آگئی اور وہ مباہلہ سے پیچھے ہٹ گئے اور ایک
مخصوص مقدار جزیہ مقرر کرا کر واپس نجران روانہ ہوگئے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
اگر یہ لوگ مباہلہ کرتے تو اللہ تعالیٰ آسمان سے ان پر آگ برساتا اور پتھروں کی
بارش ہوتی اور یہ سب ہلاک ہوجاتے ایک بھی نہ بچتا۔اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مسیحیان
عالم رسول اللہ ﷺ کی بعثت کو حق جانتے تھے اور اور ان کو سچا نبی بھی مانتے تھے
مگر ان کا تعصب اور مذہبی پیشوائیت انہیں قبول حق سے مانع تھی۔بادشاہ روم ہرقل کا
واقعہ اس پر شاہد ہے کہ اس ہرقل پر حق واضح ہوچکا تھا مگر اس کو اپنے
دربار(اسٹیبلشمنٹ) سے خطرہ تھا کہ یہ بغاوت کرکے میرا تخت وتاج چھین لیں گے جبھی
وہ اسلام قبول کرنے سے بعض رہا وگرنہ جب ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو اس نے اپنے
دربار میں بلا کر ان سے مکالمہ کیا اور باوجود بدترین دشمنی کے ابوسفیان
پیغمبراسلام کے بارے میں کوئی غلط بات نہ کہہ سکے تو ہرقل نے بھی انہیں سچا نبی
مان لیا کہ کہا کہ اگر یہ باتیں جو تم کہہ رہے ہو سچ ہیں تو
عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا کہ جہاں میرے یہ دونوں پاؤں ہیں۔ مجھے معلوم
تھا کہ وہ (پیغمبر) آنے والا ہے۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارے اندر ہو
گا۔ اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لیے ہر تکلیف گوارا
کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔(صحیح بخاری،رقم الحدیث 7)
فتح مکہ کے بعد جب اسلام کی
نشرواشاعت جمیع بلاد عرب میں پھیل گئی تو اطراف عرب وشام میں رہنے والے توحیدی
عیسائیوں نے اسلام کو قبول کرلیا اور اسلام میں ضم ہوگئے اور اب دنیا میں فقط
تثلیثی مشرک مسیحی ہی باقی بچے ہیں۔چند مسیحی گروہ ایسے ہیں جو آج بھی توحید پرستی
کادعویٰ کرتے ہیں مگر ان کا دعویٰ بذات خود کذب بیانی کے سوا کچھ نہیں بلکہ وہ بھی
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب جھوٹی روایات پر مبنی کتب پر ہی یقین رکھتے ہوئے
انہیں الہام کا درجہ دیتے ہیں اور ساتھ ہی عیسیٰ علیہ السلام کو مجسم خدا بھی
مانتے تھے جبکہ قرآن کریم اس بات کی سختی سے تردید کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز
سے پاک ہے اس کو کسی چیز کے تجسم کی ضرورت نہیں۔
غرض کہ آج کی
دنیا توحیدی عیسائیوں کو وجود عنقاء ہوچکا ہے اور دنیا میں فقط مشرک مسیحی ہی باقی
بچے ہیں جن کا سیدناعیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں
بلکہ یہ سب انسانی تعلیمات ہی ہیں جنہیں الہام کے نام پر کونسلز کا انعقاد کرکر کے قبول کیا گیا۔وادی
قمران کے صحائف دنیا کے سامنے آنے سے تو یہ بات اور بھی زیادہ واضح ہوگئی ہےکہ
موجودہ مسیحیت ایک غیرالہامی مذہب ہے ۔مجھے رہ رہ کر مشہور مسیحی محقق وقمرانی
صحائف پر ریسرچ کرنے والے اسکالر جان الیگرو کو مقولہ یادآرہاہے جو انہوں نے اپنی
کتاب"دی ڈیڈ سی اسکرول" میں لکھا ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ مسیحیت کو
انسانی ہاتھوں سے اتقاء پذیر مذہب قرار دے کر ہمیشہ کے لئے خیرآباد کہہ دیا جائے۔
تحریر:عبداللہ
غازیؔ