Pages

Most Popular

جمعرات، 16 جولائی، 2015

نقائیہ وجامنیہ کونسلز اور عہدنامہ قدیم وجدید (تحریری مناظرہ)


یہ بحث تب سے شروع ہوئی جب ایک عیسائی نے میرے کمنٹ کے رپلے میں ایک اشتعال انگیز کمنٹ کیا!!



دیسی عیسائی عاشر آگسٹن  کا کمنٹ


ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ پڑھنا ایک بات ہے اور تاریخ کو اُس کے سیاق و سباق میں پڑھنا الگ بات ہے۔ اگر چہ یہ موضوع نہیں ہے مگر آپ سے بہتر موضوع سے کوئی ہٹ بھی نہیں سکتا اِس لئے اب درستگی فرمائیں۔

جامنیہ کی کونسل کا ذکرِ خیر تو فرما دِیا لیکن اِس کے خد و خال شاید آپ کی نظر سے اوجھل ہو گئے۔ جامنیہ کی کونسل میں عہد نامہء قدیم کی کُتب کی فقط تجدید کی گئی۔ اُسے تو پہلے سے اہلِ یہود مان رہے تھے تاہم سن ۷۰ء میں یروشلیم کی تباہی کے بعد یہودی طریقِ عبادت کو مرتب کرنے اور یہودی قوم کو نئے ماحول میں رہنے کے لئے قوانین کی تشکیل کے دوران عہد نامہء قدیم کی فہرست کا موضوع بھی زیرِ بحث لایا گیا جس کے تحت یہودی ربیوں نے فقط اُس فہرست کی روایت کو بر قرار رکھنے کا عزم کیا۔ 
بحوالہ
(Introduction to the Old Testament, A. Bentzen, p. 31)
(Canon of the Scripture, F. F. Bruce, p. 34)

یہ ہے کونسل آف جامنیہ کی تاریخ۔ جس طرح قُرآن کے مُصنف نے بائبل کی باتیں توڑ مروڑ کر بیان کیں اُسی طرح آپ تاریخ کو بگاڑ کر پیش کر رہے تھے۔

اِسی طرح نقایہ کی کونسل میں بھی عہد نامہء جدید کی کُتب کو قطعاً متعین نہیں کیا گیا بلکہ اُس کی تجدید کی گئی۔ یہ فہرست کلیسیا نے کبھی مُرتب نہیں کی، بلکہ فقط اِسے دریافت کیا۔ جو رسولی دور سے مسیح یسوع اور اُن کے شاگردوں کی تعلیم کے متعلق تھیں۔ ابتدائی کلیسیا کو فہرستِ کُتبِ مقدسہ کے متعلق چیلنجز اور مسائل ہی در پیش نہ تھے اِس لئے پہلی تین صدیوں میں یہ مسئلہ ہی نہ تھا کہ کتب کی تعداد کتنی ہے، کلیسیا میں اِلہامی اور غیر الہامی کُتب کا اِمتیازی شعور تسلسل کے ساتھ موجود تھا۔ اِبتدائی کلیسیا میں الہام کے متعلق کوئی سنجیدہ اختلاف موجود ہی نہیں تھا۔ 
بحوالہ

حولہ مذکور
(Defending Inerrancy, William C. Roach)

تاریخ تو اِس بات کی شاہد ہے کہ فہرستِ کُتبِ مقدسہ کے آزادانہ شعور نے بدعتی افراد کے جعلساز عزائم بے نقاب کر دیئے اور کسی کونسل نے کسی نئی کتاب کو متعارف نہیں کروایا بلکہ رسولی دور کی تجدید کی۔ نہ ہی کوئی ۴،۵ افراد کی کمیٹی بنائی گئی جو آیات کو اکٹھا کر کے کتابی شاکل دیتی رہی اور پھر بھی آیات غائب ہوئیں۔ یہ مضحکہ خیز واقعات مسیحی تاریخ سے تو وابستہ نہیں البتہ گُونگے حرفوں کی تلاوت کرنے والوں کے لئے یہ واقعات اِنتہائی فخریہ ہیں۔



مسلمان عبداللہ غازی کا جواب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
درست فرمایا کہ تاریخ کو اس کے سیاق وسباق میں ہی پڑھنا چاہیے لیکن جن لوگوں کی مذعومہ "الہامی"کتاب ہی باطل قلم کی بطالت کا شکار ہوں ان سے اس بات کی امید رکھناہی فضول ہے کہ وہ کہ وہ بات کو درست سیاق وسباق میں کرسکیں۔
1
۔ یہ تو میں لطیفہ سن رہاہوں کہ جامنیہ کونسل میں عہدنامہ قدیم کی تجدید ہوئی۔زرا جامنیہ کونسل سے قبل کا کوئی ایک قدیم نسخے کے نام لینے کی ہمت تو کیجئے حضور grin emoticon جامنیہ کونسل تو عہدجدید کے ساتھ بدترین استہزاء ہے۔وادی قمران سے دریافت ہونے والے صحائف نے نہ صرف جامنیہ کونسل کا پول کھول دیا ہے بلکہ عہدقدیم کی بھی بیخ کنی کرکے رکھ دی ہے۔وادی قمران کے صحائف پر تحقیق کرنے والے معروف امریکی صحافی ایڈمنڈ ولسن لکھتے ہیں۔
The mesoretic text of bible, which was established at an unknown date by a committea of rabbinied schoars who did their best to any other text which has been accepted by the Orthodox Synagogue as the unalterable and unquestionable. The Dead see Scrolls P # 126
آپ کی سہولت کی خاطر ترجمہ بھی کردیتا ہوں ، موصوف رقمطراز ہیں۔ "بائبل کا مسوراتی متن جسے کسی نامعلوم زمانے میں ربیوں کی ایک جماعت نے متعین کیا اور پوری کوشش سے اس کے علاوہ ہردوسرے متن کو دبادیاگیا۔ اس وقت سے قدیم الخیال یہودیوں کے ہاں ناقابل تغیراوررمسلمہ سمجھاجاتاہے۔
سچائی کا گلا گھونٹ کر ایک جھوٹی شے کو سچا تسلیم کرنا آپ کے گروگھنٹال یہودیوں کا ہی شیوہ ہوسکتا ہے لیکن سچ تو سچ ہے کبھی چھپ نہیں سکتا جبھی خدائے واحد یہوواہ قادرمطلق خدا نے وادی قمران کے صحائف کو دنیا کے سامنے لاکر جامنیہ کونسل میں کلام مقدس کے اندوہناک قتل کی داستان کو رونما کردیا۔صرف ایڈمنڈ ولسن ہی نہیں بلکہ دیگر محققین بھی اس مؤقف میں انکے ہمنوا ہیں۔ڈاکٹرچارلس فرانسس پارٹر لکھتے ہیں۔
Unfortunately, that authorized list of approved writings was not determined by his tosical facts but by theologied considerations. The Lost years of Jesus Revealed P 71
ترجمہ: بدقسمتی سے منظورشدہ تحریرات کی اس مصدقہ فہرست کا فیصلہ تاریخی حقائق کے بجائے دینی امور کو ملحوظ خاطر رکھ کر کیا گیا۔
جس بات کو آپ کے ممدوحہ افراد نے اپنے فائدے کے لئے خود سے گھڑ لیا ہے آج آپ اندھے مقلد بن کر اسی کی پیروی کررہے ہیں؟یسوع صاف صاف کہتے ہیں کہ اندھا اندھے کو راہ نہیں دکھا سکتا لیکن عقل کے اندھے دیسی عیسائیوں پر اسلام دشمنی میں یہودی محبت کا ایسا بخار سوار ہے کہ یہودی مقدس دھوکے کی پیروی میں خو د کو دگنا ہلاکت کا فرزند بنا لیا ہے۔
2
۔ اگر دم رکھتے ہیں تو جامنیہ سے قبل کے کسی قدیم عبرانی صحیفے کو پیش کیجئے وگرنہ وادی قمران کے صحائف تو خیر سے جامنیہ سے قبل کے ہی مسلمہ ہیں وہی اس ڈھونگ کانفرنس کا پول کھول دینے کے لئے کافی ہیں ۔حبقوق کی کتاب جوقمران سے دریافت ہوئی وہ فقط 2ابواب پر مشتمل ہے جبکہ مروجہ حبقوق میں 3ابواب ہیں تیسرا باب کون سے باطل قلم کا شاخسانہ ہے؟
3
۔ وادی قمران کے صحائف اختلاف متن کے ساتھ عہدقدیم کے کسی نہ کسی قدر حصے کے حامل ضرور ہیں لیکن حیرت انگیز بات کہ ہوسیع کی کتاب ان میں بالکل مفقود ہے؟یہ کتاب کہاں سے ان میں شامل ہوئی میرے تاریخ دان دوست؟آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا مخاطب بھرپور حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آ کے ہر دعوے کو حکیم اخفش کی بکری کی طرح سر ہلا ہلا کر قبول کرتا جائے۔عہدجدید کے مصنفین کی طرح آپ نہ صرف مقدس دھوکہ دے کر خدا کا جلال ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں بلکہ اس سے آپ کی تاریخ دانی کا پول بھی کھل گیا ہے۔قمرانی یہودی یشوعا کے زبور، لاوی بن یعقوب کا عہدنامہ،صحیفہ دمشق، کتان نوح، مکاشفات جوبلی، اقوال موسیٰ، دستورالعمل، ابنائے نور وظلمات،سلیمان کے زبوروغیرہ پر مشتمل ہے یہ تو صرف چند ہی نام آپ کی ضیافت طبع کے لئے پیش کئے ہیں وگرنہ تو وادی قمران کے ساتھ ساتھ گمشدہ کتابوں کی فہرست عہدقدیم سے بھی فراہم کی جاسکتی ہے، خاص بات تو یہ کہ عہدجدید حنوک کی کتاب کی خبر دیتا ہے مگر یہی حنوک کی کتاب عہدقدیم میں مفقود ہے لیکن قمرانی لٹریچرمیں موجود ہے۔اس سچی کتا ب کو کس بناء پر صولی دے کر عہدقدیم سے خارج کیا گیا جبکہ شاگرد بھی اس سے واقف تھے؟

4
۔ نقائیہ کونسل میں عہدنامہ جدید کی تجدید کی گئی یہ مقدس دھوکہ اس کو دیجئے گا جو اس کونسل کی حقیقت سے واقف نہ ہو۔زرا اس قدیم یونانی صحیفے کا نام تو بتائیے جس میں پورا کا پورا عہدجدید موجود ہے؟ہاں البتہ ان قدیم صحف میں وہ وہ کتابیں موجود ہیں جو کلسیائی مفاد اور پولوسی نظریا ت کے تحفظ میں عہدجدید سے خارج کردی گئیں۔ سینائی نسخے میں ہرمس کا چرواہا نامی کتاب بھی موجود ہے جس کا حوالہ پادری برکت اللہ اپنی کتاب "صحت کتب مقدسہ" صفحہ 216 سنہ اشاعت 1952ء پر دیتے ہیں! موجودہ انجیل میں یہ کتاب کیوں نہیں ہے؟
5
۔ کلیمنٹ نے کرنتھیوں کے نام ایک خط لکھا تھا 170ء میں بشپ ڈایونسس فرماتے ہیں کہ "قدیم زمانے سے اس خط کو کلیسا میں پڑھنے کا دستور چلا آرہا ہے" بحوالہ صحت کتب مقدسہ!
اگر نقائیہ کونسل میں مقدس نوشتوں کی تجدید ہوئی تھی تو آج کس کلیسا میں کلیمنٹ کا خط پڑھا جاتا ہے جبکہ اس کا خط پڑھنا قدیم کلیسا کی سنت ہے؟
6
۔ نسخہ سینائی میں حواری جناب برنباس کا خط بھی موجودہے! آج کی کلیسا بائبل کے قدیم سینائی نسخے کے مطابق برنباس کا خط کیوں نہیں پڑھتی؟
7
۔ پادری برکت اللہ "صحت کتب مقدسہ" میں صفحہ 181 سن اشاعت 1952ء میں رقم طراز ہیں " اس نسخہ میں اناجیل اربعہ اور اعمال رسل کا متن دیگر یونانی نسخوں سے مختلف ہے؟
یہ تو آپ کے قدیم یونانی نسخوں کا حال ہے جس کا نام لے لے کر آپ لوگوں کو شاگرد بناتے ہیں اور پھر اپنے سے دگنا ہلاکت کا فرزند بنادیتے ہیں۔
8
۔ بائبل کے قدیم پشیتائی نسخے میں پطرس کا دوسرا خط ، یوحنا کا دوسرا اور تیسرا خط، یہوداہ کا خط اور مکاشفہ کی کتاب نہیں ہے کیونکہ جب یہ ترجمہ کیا گیا تھا اس وقت سریانی کلیسا ان کتابوں سے ناواقف تھی؟ بحوالہ صحت کتب مقدسہ، صفحہ 193، سن اشاعت 1952
جب آبائے کلسیاء ایک چیز سے ہی ناواقف تھے تو پھر بعد میں کیسے اس کو الہامی کا درجہ دے دیا گیا؟یہ رسولی دور کی تجدید نہیں بلکہ رسولی دور اور آبائے کلسیاء سے بدترین خیانت کا ارتکاب ہے جوکہ نقائیہ کونسل میں پیش آیا۔ویسے یہ کیسی عجیب ترین بات ہے کہ جیسے جیسے ہم یسوع مسیح کے زمانے کے قریب ہوتے جاتے ہیں "الہامی" کتب کم ہوتی جاتی ہیں اور جیسے جیسے حضرت علیہ السلام کے زمانے سے دور ہوتے جاتے ہیں کتب کی تعداد میں اضافہ ہوتاجاتا ہے؟ اس کو کیا نام دیں گے آپ؟
9
۔حال ہیں میں چرچ سے شائع ہونے والی کتاب "معتدبہ کلام مقدس" میں صاف صاف اقرار کیا گیا ہے کہ یسوع کے بالکل درست الفا﷽ ظ کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ۔یہ تو حال ہے اس عہدجدید کے اندھوں حروفوں کا جس کی بنائ پر کسی کو گونگے حروفوں کا طعنہ دے رہے ہیں۔ آپ کے مبینہ گونگے حروف تو پھر بھی پوری دنیا میں ایک ہی پائے جاتے ہیں لیکن اندھے حروف تو ہر خطے کے مسیحی کے لئے واقعتاً اندھے ہی ثابت ہورہے ہیں جھی وہ ان الفا﷽ ظ کو الہامی سمجھ کر بدبداتے رہتے ہیں جن کا یسوع سے کوئی تعلق نہیں۔


دیسی عیسائی عاشر آگسٹن  کا کمنٹ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

جو بات آپ کے عزائم کے خلاف ہوں اُن کو لطیفہ کا درجہ دینا غیر سنجیدہ فنکاروں کا ہی شیوہ ہو سکتا ہے۔ جامنیہ کی کونسل نے عہدِ قدیم کی تجدید کیسے کی خُود ہی مُلاحظہ فرمائیں:

About the same time as Josephus, the Hebrew Scriptures were among various subjects debated by the rabbis at Jamnia in western Judaea to discuss the reconstruction of Jewish religious life after the collapse of the Jewish commonwealth in AD. 70. So far as the scriptures were concerned, THE RABBIS AT JAMNIA INTRODUCED NO INNOVATIONS; THEY REVIEWED THE TRADITION THEY HAD RECEIVED AND LEFT IT MORE OR LESS AS IT WAS. IT IS PROBABLY UNWISE TO TALK AS IF THERE WAS A COUNCIL OR SYNOD OF JAMNIA WHICH LAID DOWN THE LIMITS OF THE OLD TESTAMENT CANON.

اہم باتوں کو کبیر الفاظ میں لکھا ہے: جامنیہ کے ربیوں نے کوئی نئی اختراع متعارف نہیں کروائی۔ اُنہوں نے روایات پر نظرِ ثانی کر کے اُنہیں کم و بیش ویسا ہی چھوڑ دیا۔ یہ کہنا احمقانہ ہو گا کہ جامنیہ کی کونسل نے عہد نامہء قدیم کی حدود مقرر کیں۔ (بحوالہ Canon of Scripture, F. F. Bruce)۔ اِس کے فوٹ نوٹ پر A. Bentzen کے الفاظ یُوں ہیں (ترجمہ): ربیوں کا تبادلہء خیال عہدِ قدیم کی کُتب کے چُناؤ پر مبنی نہیں تھا بلکہ اُن کی تجدید پر موقوف تھا۔

آپ نے مُجھے کہا کہ جامنیہ کونسل سے قبل کسی نُسخے کو پیش کر دُوں۔ یہ آپ کے سمجھنے میں غلطی ہے۔ جامنیہ کی کونسل سے پہلے یہودیوں کو یہ ضرورت ہی نہ محسوس ہوئی کہ من حیث القوم اپنی کتب کی فہرست کو قومی درجہ دیں کیونکہ اُن کا مقدس شہر یروشلیم قائم تھا اور ہیکل میں ایک register موجود تھا جس میں ہر کتاب کا نام درج تھا۔ یہی آپ کے لئے بطور ثبوت کافی ہونا چاہیئے مگر دیگر شواہد بھی پیش کر دیتا ہُوں۔

The Jews recorded their books in a register present at the Temple in Jerusalem. The register comprised the books of the Old Testament. These books became Scripture not because of any decision of any Synod or Council but because in them men found God. In 500 AD, the Pentateuch was regarded as the First Five Books of the Canon, by the beginning of the 2nd century BC, the Former and Latter Prophets were added and the Writings in 132 BC.

(The Making of the Bible, William Barclay, p.138)

باالفاظِ دیگر ۵۰۰ قبلِ مسیح میں توریت، ۲۰۰ قبلِ مسیح میں انبیاء کی کتب اور ۱۳۲ قبل مسیح میں تاریخی کتب کی تصدیق کی گئی۔ اور اِن کی فہرست بھی پیش کر دیتا ہُوں، اخلاقی جُرآت ہو تو تاریخی طور پر تردید کریں:

In 132 BC, the grandson of Jeshua Ben Sira, shortly after emigrating from Palestine to Alexandria, spoke of "THE LAW, THE PROPHETS AND THE WRITINGS- i.e. THE TENAK (TORAH, NEBIIM AND KETUBIM) AS JEWISH SCRIPTURES". These 24 books are identical with the 39 of the Old Testament.

(Canon of Scripture, F. F. Bruce, p. 29)

جامنیہ کی کونسل سے ۲۰۰ سال قبل ہی اسکندریہ تک یہودی اپنی کُتب سے واقف تھے اور آپ پتا نہیں کِس بات کا رونا رو رہے ہیں۔ مسیح یسوع نے بنفسِ نفیس انبیاء کے شہید ہونے کا ذکر کرتے ہوئے پُرانے عہد نامے کی ۳۹ کُتب کی تصدیق کی (لُوقا ۱۱:۵۱)۔ ہابل سے زکریاہ (پیدائش سے ۲ تواریخ یعنی پہلی کتاب سے آخری کتاب تک)۔ یہاں پر عہد نامہء قدیم کی حد کے متعلق پتا چلتا ہے۔

اب آئیں وادیِ قُمران پر جن کے حوالہ جات بڑے زور و شور سے دیئے گئے۔ لیکن ایک بھی پیش کیا گیا سکالر درست مسیحی مکتبہء فکر کا نہیں ہے۔ یہی آپ کے دُہرے معیار کا عکاس ہے۔ ایڈمنڈ ولسن ایک نقاد صحافی تھا جس نے اپنے تمام ہم عصروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا۔ گویا آپ قادیانیوں کی کُتب سے نظریہء ختم نبوت کو سمجھنا چا رہے ہیں۔

وادیِ قمران کی اصل حقیقت آپ سے رو پوش رہی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

The Dead Sea scrolls discovered and studied appear to represent about 500 separate documents, about 100 of them being copies of books of the Hebrew Bible. ALL THE BOOKS OF THE HEBREW BIBLE ARE REPRESENTED AMONG THEM.

اور سب سے اہم بات:

THE MEN OF QUMRAN HAVE LEFT "NO STATEMENT" INDICATING PRECISELY WHICH OF THE BOOKS REPRESENTED IN THEIR LIBRARY RANKED AS "HOLY SCRIPTURE" AND WHICH DID NOT.

(Canon of scripture, p. 39)

یہ آپ کی دلیل کا پول کُھل گیا۔ کسی بھی شخص نے اُن کُتب میں امتیاز نہیں کیا کہ کون سی کتاب اِلہامی ہے اور کون سی نہیں۔ آپ کیسے چل پڑے اُنہیں عہدِ قدیم کا حِصہ بنانے؟۔ آپ کو وادیِ قُمران کے یہودیوں پر اتنا اعتبار ہے جنہوں نے اِلہام کی کوئی حد ہی نہ طے کی بلکہ پُرانے عہد نامے کی کُتب پر بعض نے تفاسیر لکھیں۔ لیکن مسیح یسوع اور راسخ الاعتقاد یہودی پر تو آپ رتی برابر اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں، یہی آپ کے دوغلے پن کا ثبوت ہے۔ یہودی یسوع مسیح کے سخت مُخالف ضرور تھے لیکن اُن میں کبھی بھی کُتب کی تعداد پر اختلاف نظر نہیں آتا۔

موصوف نے حنوک کی کتاب کا نئے عہد نامے میں موجود ہونے کا ذکر کیا۔ نئے عہد نامے میں تو شعرا بھی پیش کئے گئے تاکہ اِنجیل کو سمجھنے میں آسانی ہو (اعمال ۱۷)۔ اِس کا مطلب یہ کہ اُس شاعر کا کلام بھی اِلہامی کُتب میں شامل کیا جائے؟ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مسیحی نظریہء اِلہام سے بالکل کورے ہیں۔ اِسلامی نظریہء اِلہام سے دُنیا کی سب سے عظیم کتاب کو سمجھنے کی کوشش مت کریں۔ کسی بھی کتاب کا حوالہ دے دینا اُس کے اِلہامی ہونے کی دلالت نہیں ہے۔ اِسی حماقت کا ایک شاخسانہ آپ کی حال ہی میں ایک پوسٹ کے ذریعے پیش کیا گیا جس میں آپ لودیکیہ کے خط پر طبع آزمائی فرما رہے تھے۔ تو یہ آپ کے نظریہ اِلہام سمجھنے میں غلطی ہے۔ اِس کا ملبہ بائبل پہ مت ڈالیں، راندہء درگاہ ہوں گے۔

نئے عہد نامے کے متعلق بھی آپ نے بہت شور و غُل کِیا۔ کُتب کی شمولیت کا اُصول پہلے سمجھ لیں۔
Authority precedes canonicity.

آسان الفاظ میں دستاویز لکھنے والے کا اِختیار اُس کی تحریر سے بڑھ کر ہے۔ مسیح یسوع کے الفاظ اُن کی کسی بھی تحریر سے افضل ہیں۔ اِسی لئے آپ لوگ مر کھپ گئے مگر کوئی دستاویز ہاتھ نہیں لگا کیونکہ آپ مسیحی نُکتہء نظر سے قطعاً واقف نہیں۔ مسیح یسوع کی زُبان سے کہا گیا ہر لفظ اِلہامی ہے، یہ اُس کا اختیار ہے۔ اِسی طرح رسول بھی مسیح کے بخشے ہوئے اختیار سے ہی منادی کرتے اور تحریرات مندرج کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ کلیسیا نے اُن کی تصانیف قبول کیں۔

The canon was not the result of a series of contests involving church politics. The canon is rather the separation that came about because of the intuitive insight of Christian
believers. They could hear the voice of the Good Shepherd in the gospel of John; they could hear it only in a muffled and distorted way in the Gospel of Thomas, mixed in with a lot of other things. When the pronouncement was made about the canon, it merely ratified what the general sensitivity of the church had already determined.
The canon is a list of authoritative books more than it is an authoritative list of books. These documents didn’t derive their
authority from being selected; each one was authoritative before anyone gathered them together. The early church merely listened and sensed that these were authoritative accounts.
(Case for Christ, Lee Strobel, p. 69)

Canon کے ماہر Bruce Metzger کا بیان۔

ہرمس، کلمنٹ کا شمار طبع طابعین میں ہوتا تھا اس لئے کلیسیا کو اُن کی تحریرات میں امتیاز کرنے میں دقت محسوس نہ ہوئی۔

The Shepherd was written by Hermas in our own times, therefore it cannot be given out to the people in church as the writings of the prophets.

(Canon of Scripture, p. 161)

یہ Muratorian Fragment نامی دستاویزکا بیان ہے نقایہ کی کونسل سے قبل (دوسری صدی)۔ یعنی کہ کلیسیا اِس بات میں امتیاز کرنے کی صلاحیت پہلے سے ہی رکھتی تھی۔ 

اِسی طرح برناباس کے خط کے متعلق سینٹ جیروم کا بیان انتہائی اہم ہے:

The letter of Barnabas might be useful for the edification of the people BUT NOT FOR ESTABLISHING THE AUTHORITY OF ECCLESIASTICAL DOGMAS.

(حوالہ مذکور صفحہ ۲۲۸)

ترجمہ: یہ خط کلیسیا کو پنپنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے تاہم اِس سے عقائد اخذ نہیں کئے جا سکتے۔

کلمنٹ نے پولس کے رسولی اختیار کی تصدیق کی۔ اگر اُس کا خط اِتنی ہی اہمیت کا حامل ہے تو پھر اُس کی اِس بات کو بھی سرِ تسلیم خم کریں کیونکہ آپ کو تو پولس رسول کے ساتھ خُدا واسطے کا بیر ہے۔ کلمنٹ نے روح القدس پانے کا دعویٰ تو کِیا مگر کبھی اِلہامی تصانیف لکھنے کا دعویٰ نہیں کیا۔

ایک اور اہم نُکتہ مسیحی تاریخ میں ایذارسانی سے مِلتا ہے۔ یہ بھی اُسی کلیسیا کی تاریخ کا حصہ ہے جس کے حوالہ آپ شتر بے مہار دئے جا رہے ہیں۔ جب مسیحیوں سے اِلہامی نُسخہ جات طلب کئے گئے تاکہ اُنہیں جلا دیا جائے تو مسیحیوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اِلہامی کُتب دینے سے اِنکار کیا تاہم غیر الہامی کُتب کو وہ بصدقِ شوق رومی حکومت کے حوالے کر دیتے تھے (حوالہ مذکور صفحہ ۲۶۸)۔

الکتاب میں الہامی کتب کی شمولیت خُدا کے روح سے ہدایت کے ذریعے کلیسیا نے باریک بینی سے دریافت کی۔ اِس کا منتخب ہونا کسی بھی ایک با اثر یا عام مسیحی کے اختیار پر موقوف نہیں تھا۔

ایک کتاب کا راگ الاپنے والے آج آیت الرجم سے محروم ہیں جو اصل قُرآن میں موجود تھی۔ حضرت عُمر اِس کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے مگر آج یہ اہلِ اِسلام کو دستیاب نہیں۔ اِسی لئے تو یہ جہلہء مطلق گُونگے حرفوں کی تلاوت کرتے ہیں۔ البتہ شیطان کی جانب سے ابو ہریرہ کو دی گئی آیت الکرسی ضرور آج مسلمانوں کے لئے نوشتہء دیوار بنی ہوئی ہے۔ ایسی صُورتِ حال میں الکتاب کو تختہء مشق بنانا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔



عبداللہ غازی کا جواب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
واہ واہ کیا لفاظی کے جوہر بکھیرے ہیں لفاظی کے توتے اڑانے میں آ پ کو اپنا گرو تسلیم کرنے کو دل کرتا ہے۔مگر اس کاپی پیسٹ میں کام کی باتیں چند ایک ہی ہونگی کیونکہ عیسائی لفاظی میں سے کام کی بات برآمد کرنا بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔
1۔ میں نے آپ سے اس قدیم عبرانی صحیفے کانام طلب کیا جو جامنیہ کونسل سے قبل موجودتھا فقط آپ کے خالی خولی دعاوی ہی قابل قبول نہیں مگر افسوس کہ میرا یہ مطالبہ آپ کی لفاظی کی گرد میں گم ہوگیا۔اگر یہ کہنا احمقانہ ہے کہ جامنیہ کونسل نے عہدنامہ قدیم کی حدود مقرر کیں تو اس حماقت کا مرتکب سب سے پہلے وہ چرچ ہوا ہے جسکی مطبوعہ کتاب کو "کتاب مقدس" کہتے کہتے آپ کی زبان نہیں سوکھتی۔زراکتاب مقدس مطالعاتی اشاعت کا صفحہ نمبر7 تو ملاحظہ فرمائیں جہاں آپ کے دعویٰ کے دھجیاں مجھ سے قبل چرچ ہی بکھیر رہاہے۔امید ہے کہ اس حوالے کی زیارت کے بعد کامل شفاء مل جائے گی۔
2۔آپ کا یہ دعویٰ یقینا قابل تسلیم ہے کہ جامنیہ کونسل سے پہلے یہودیوں کو یہ ضرورت ہی نہیں محسوس ہوئی کہ وہ اپنی کتب کی فہرست کو قومی درجہ دیں لیکن اس دعویٰ کی قبولیت کے ساتھ ایک تلخ سچائی وادی قمران کے صحائف میں شامل ان کتب کی صورت میں موجود ہے جن کتب کو جامنیہ کونسل میں یسوع کی مانند صلیب پر چڑھا کر ہمیشہ کے لئے دفن کردیا گیا اور دوہزار سال کے بعد اب دنیا ان کتب سے روشناس ہوئی ہے۔یقینا یہوی جامنیہ سے قبل بھی اپنی کتابوں سے واقف تھے مگر پھر اسینی یہودیوں کے نوشتوں کے کس پیرائے میں فٹ کریں گے میرے محترم؟جامنیہ کونسل سے قبل اسینی یہودی نہ صرف بہت سی کتابوں کو بطور مقدس نوشتے تلاوت کرتے تھے بلکہ اپنے عقائد کی ترویج میں بھی ان کو استعمال کیا کرتے تھے۔اسینی یہودیوں کے صحائف اس پر شاہد ہیں کہ ان میں مروجہ عہدجدید کے علاوہ بہت سی کتب بھی بطور مقدس نوشتے رائج تھیں وگرنہ ان کتب کی اس لٹریچر میں موجودگی چہ معنی وارد؟اگر دو اندھے بھی مل کر سورج جیسی حقیقت کا انکار کریں تو پھر اس سے سورج کی عدم موجودگی ثابت نہیں ہوسکتی آپ کا اس اظہرمن الشمس سچائی سے انکار کرنا سورج جیسی حقیقت کا ہی انکار ہوسکتا ہے کیونکہ غیرجانبدار محققین نے تو ان صحائف کی روشنی میں کلسیاء کی بنیادیں تک ہلا دی ہیں جبھی ان صحآئف کا نام سامنے آتے ہیں پادریوں کے رنگ زرد پڑ جاتے ہیں۔
3۔ ھاھاھاھا آپ کے اس لطیفے پر ہنسا ہی جاسکتا ہے کہ وادی قمران پر دیئےگئے میرے حوالہ جات ایک بھی عیسائی مکتبہ فکر اسکالر کے نہیں۔میرے دوست قمرانی صحائف توکلسیاء کے لئے سوہان روح بنے ہوئے ہیں وہ بھلا کیوں اس تلخ سچائی کی انجیل کو قبول کریں گے؟یہودیوں اور عیسائیوں کو جب بائبلی لٹریچر کا ریت کا محل ہلتا نظر آیا تو وہ کیوں مانتے قدیم دریافت شدہ لٹریچر کو؟کیا کسی اور قمرانی محقق نے ان اسکالرز کی تردید کی جو آپ کی آنکھ کا کانٹا بنے ہوئے ہیں؟آپ کو چاہیے کہ وادی قمران کے محققین کی تردید اسی سطح کے کسی اسکالر سے کروائیں نہ کہ پوادارنہ تشریحات سے۔
4۔قمرانی صحائف تو عہدقدیم کی حثییت کو تارعنکبوت سے بھی کمزور کردیتے ہیں۔یونائیٹڈڈ بائبل سوسائٹی کے زیراہتمام شائع ہونے والی کتاب معتدبہ کلام مقدس میں اس کڑوی سچائی کا اعتراف ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔"قمران کے متون ہمیں ماضی میں اتنا دور لے جاتے ہیں کہ مکررتشکیل شدہ متن کے مسلمہ ہونے کی حیثیت پر شک ہونے لگتا ہے۔دوسرے لفظو ں میں یہ ضروری نہیں کہ نہایت ابتدائی متن اپنی ہیئت میں وہ متن ہو جس کو مسلمہ مانا گیا ہو"۔معتدبہ کلام مقدس،صفحہ111۔ لیجئے آپ کی مادرکلیسیاء تو کھل کر اعترافِ جرم کررہی ہے کہ یہ ڈھونگ عبرانی متن اس قدیم اصل متن کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے۔جب اسینی صحائف ایسے حقائق پر مبنی ہوں تو پھر کیسے آپ کی کلسیاء ان کو سینے سے لگا سکتی ہے؟
5۔ اگر قمرانی متون سے صرف نظر کر بھی لیا جائے توپھر ناگ حمادی مصر کے لٹریچر کے متعلق کیا خیال ہے؟ پھر قدیم نسخوں کی فہرست کتاب وار عقل مند عیسائی آج تک کیوں شائع نہیں کر سکے میں آپ کو چیلنج دیتا ہوں کہ زرا ان قدیم عبرانی ویونانی صحائف اور ان میں شامل کتابوں کی فہرست تو شائع کیجئے تاکہ معلوم ہو کہ کس طرح مقدس دھوکہ دے کر آبائے کلیسیاء کی کتنی کتابوں کو عہدقدیم وجدید سے خارج کردیا گیالیکن یہ کام تو آپ کے بڑے نہیں کرسکے تو آپ سے بھی اس کی امید رکھنا فضول ہے۔
6۔ھاھاھاھاھا لوقا11:51 جیسے متنازعہ حوالہ دے کر اپنی ہی عقل سے اس میں سے عہدنامہ قدیم کی 39 کتب کی تصدیق برآمد کرلی جبکہ یسوع کے تو شاید وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اس فقرے میں ایسے ایسے شاخ وبرگ لگا کر کیا کچھ برآمد کیا جائے گا؟میرے دوست پہلے اس فقرے میں موجود زکریاہ کا تو تعین کرلیجئے کہ وہ زکریا بن برکیاہ ہے یا زکریا بن یہودیع؟اس کے بعد اس فقرے سے عہدقدیم کو برآمد کیجئے گا۔آپ کے دعوے تو مکڑی کے جال کی حیثیت بھی نہیں رکھتے لیکن آپ بضد ہیں کہ آپ کے دعوےٰ کو ہی آنکھ بند کرکے قبول لیا جائے ۔

7۔ ایک بار پھر مسکراہٹ کا تحفہ پیش کرتا ہوں آپ کی لفاظی اور بدحواسی پر کہ کس طرح آپ سچائی پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔شعرا کی بات اور ہے اور کتاب مقدس سے حوالہ دینے کی بات اور ہے۔مقدس یہودا تو حنوک کی کتاب کو مقدس کتاب سمجھتے تھے لیکن سچائی کے ازلی وابدی دشمن عیسائی اس کتاب کو مقدس کا درجہ دینے پر تیار نہیں۔زرا یعقوب 4:5 اور اور افسیوں 4:5 ملاحظہ کیجئے کہ پولس اور مقدس یعقوب کون سے نوشتوں کا حوالہ دے رہے ہیں؟ایک الہامی کتاب میں غیرالہامی کتاب کے حوالہ جات کا کیا کام؟سچائی اظہر من الشمس ہےکہ وہ لوگ تو ان صحائف کو مقدس نوشتے سمجھے تھے جبھی اپنی تحاریر میں ان سے اقتباس لیا کرتے تھے لیکن جن لوگوں نے اپنی مرضی سے ہی پسندیدہ کتب کا انتخاب کیا ہو وہ ان نوشتوں کو مقدس کا درجہ دینے پر تیار نہیں۔اب معلوم نہیں کہ پولس اور مقدس یعقوب جھوٹے تھے یا پھر آج کے عیسائی اسکالرز اورپادریوں کو جھوٹ بولنے میں عار محسوس نہیں ہوتی۔
8۔اب زرا اپنے الہام کی حقیقت بھی اپنی ہی کلسیاء کی زبانی ملاحظہ فرمالیجئے!معتدبہ کلام مقدس میں چرچ لکھتا ہے۔"مسیحیوں نے شروع سے ہی جان لیا تھا کہ ہمیں مقدس متون کے ایک ایسے مجموعے کی ضرورت ہے جوہمارااپنا ہو،جنہیں حوالے کے لئے استعمال کیا جاسکے،جو عقائد کے متعلقہ فیصلوں میں ماخذ اور غیرمتغیر حدود ہوں۔(متعدبہ کلام مقدس،صفحہ169) شاید مسیحی الہام یہی ہے کہ کسی کتاب کو، جسے چند جاہل الہامی ماننے لگ جائیں ، الہامی ہو جاتی ہے؟ کیا یسوع مسیح نے یوحنا ، متی وغیرہ کو اختیار دیا یا مقرر کیا کہ وہ الہامی کتب لکھیں؟ پھر انہوں نے الہامی کتب کے نام پر جو تضاد جمع کئے ہیں کیا خدا کی بھول ہے؟مصنف مزید لکھتا ہے"نئےعہدنامہ کی نقلیں تیار کرتے ہوئے نقل نویس بعض اوقات متن میں تصرفات کردیا کرتے تھے۔بعض تصرفات دانستہ اور ارادی ہوتے تھے تاکہ اسلوب بیان بہتر ہوجائے اور زبان قواعد گرامر کے مطابق ہوجائے۔معتدبہ کلام مقدس،صفحہ124،) یہ حال ہے اس کتاب کا جس کے بارے میں بلندوبالا دعوی کرتے ہوئے دنیا کی سب سے عظیم کتاب قرار دیا جارہاہے۔
9۔ عجیب عیسائی منطق ہے کہ جس کتاب کو پڑھنے کا حکم پولس رسول دیں وہ غیرالہامی اور ایک گمشدہ کتاب جس کے ڈانٹے پولس رسول سے ملا دیئے جائیں وہ الہامی بن جاتی ہے۔زرا عبرانیوں کے مصنف کا نام تو بتانے کی زحمت فرمائیں فقط احمقانہ دعاوی سے کام نہیں چلے گا ۔
10۔شاید آبائے کلسیاء ہی مقدس جھوٹ کی مقلد تھی جبھی وہ ایک ایسی کتاب کلیمنٹ کے خط کوالہامی سمجھ کر پڑھتی رہی۔اگر کلیمٹ اور برنباس کے خط اتنے یہ مشکوک اور مردود تھے تو پھر قدیم نوشتوں میں ان کی موجودگی کا کیا مطلب ہے؟
10۔ آپ نے لکھا کہ کلیمنٹ نے روح القدس پاکر الہامی تصانیف لکھنے کا دعویٰ نہیں کیا تو میرے دوست یہ دعویٰ تو انجی نویس سمیت پولس بھی کرتے نظر نہیں آتے؟ملاحظہ فرمائیں!
"ہرکلسیاء کی خواہش ہوتی تھی کہ ہمارے پاس انجیل یاپولس کے خط کا اپنا نسخہ ہو۔جب ان تحریروں کی پہلی نقول تیار کی گئیں تو نقل نویس جنہیں منشی کہا جاتا تھا وہ ان تحریروں کو پاک نوشتے خیال نہیں کرتے تھے وہ فقط پولس یا پطرس کے کسی خط کی یا اپنے جیسے کسی مسیحی کی لکھی ہوئی انجیل نقل کررہے ہوتے تھے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سہوا غلطی کرنے کے علاوہ بعض اوقات ارادتاً تبدیلیاں کردیتے تھ"۔(معتدبہ کلام مقدس،صفحہ121)
آپ کی طلاع کے لئے عرض ہے کہ 1914 میں پادری طالب الدین بھی اپنی کتاب "ہماری بائبل مقدس کیسے پیدا ہوئی؟" میں یہی لرزہ خیر انکشاف کرچکے ہیں۔شفاءکامل کے لئے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ تو حال ہے آپ کی روح الجہالت یافتہ مصنفین اور ان کی کتابوں کا جن کو پڑھ کر آپ لوگوں کو شاگرد بناکر دگنا ہلاکت کا فرزند بنا رہے ہیں۔
11۔ ھاھاھاھاھا ایک آیت رجم کا طعنہ دینے والے خداوندکاجنگ نامہ،آشر کی کتاب،سموئیل کی قوانین کی کتاب،یاشر کی کتاب،یاہوپیغمبر کی کتاب سمیت درجنوں کتاب کو ڈکارنے والے کبھی اپنی چارپائی کے نیچے بھی جھاڑو لگا لیا کریں؟بےچارگی کی تصویر بنی یہ کتابیں عیسائیوں کے لئے نوشتہ دیوار ہیں لیکن بیناحروف آرامی کو چھوڑ کو یونانی اندھوں کے کبھی یہ نہیں دیکھ سکتے کیونکہ یہ یسوع کی تعلیم کو چھوڑ کر پولس کی کمال کی تعلیم پر عمل پیرا ہیں۔اور یسوع کا یہ قول فراموش کئے بیٹھے ہیں کہ اے بدکار پہلے اپنی آنکھ کاشہتیر تو نکال لے پھر اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا دیکھ۔



دیسی عیسائی عاشر آگسٹن  کا کمنٹ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

آج تک ایک بھی مسلمان نے برابری کا معیار نہیں اپنایا اور آپ نے بھی اِس وراثت کے ساتھ پُورا پُورا اِنصاف کِیا ہے۔ اور ثابت کر دیا کہ یہی اہلِ اِسلام کا طُرہء اِمتیاز ہے۔ آپ کو دلائل دو تو اُسے کاپی پیسٹ کا نام دیتے ہیں مگر غور کیجیئے کہ یہ کارنامہ تو آپ بھی سر انجام دے چُکے ہیں مگر مَیں نے اِسے کاپی پیسٹ کا نام نہیں دِیا۔ یہ تو آپ کے گُمان کرنے کا عالم ہے کہ مسیحی ہے تو کُتب کا مطالعہ نہیں کر سکتا ضرور کاپی پیسٹ کر دیا ہوگا۔ تاہم سنجیدہ قارئین اِس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ تمام باتیں دلائل کے طور پر پیش کئے گئے ہیں۔

آپ کو جامنیہ کی کونسل کیا مُوسیٰ کے دور کا بھی کوئی نُسخہ پیش کر دیا جائے تو تسلیم نہیں کرو گے کیونکہ لکیر کے فقیر ہو۔ تاہم تاریخ آپ کے تمام باطل نظریات طشت از بام کر دیتی ہے۔ آپ نے تو پھر بھی دعاوی کا راگ الاپنے ہے چاہے کتنے بھی دلائل پیش کیوں نہ کر دیئے جائیں۔ مُلاحِظہ کیجئیے:

۱۶۰ قبلِ مسیح میں فلسطین کے یہودیوں نے مصر کے یہودیوں کو خط لکھتے ہوئے یہ الفاظ لکھے: نحمیاہ نبی نے اپنے زمانے میں ایک مکتب دریافت کیا جس میں عہد نامہء قدیم کی کُتب کی فہرست موجود تھیں۔ اِس فہرست کو ’’ہیکل کے طومار‘‘ نامی دستاویز میں مندرج کیا گیا جو ہیکل میں موجود ہے‘‘۔ اِس خط کو مشنا (تالمود پر تفسیر) میں بھی رقم طراز کِیا گیا۔
بحوالہ
Mishnah, Mo'ed Qatan, 3.4; Kelim 15.6.

اِسی خط اور فہرست کا تذکرہ مشہور یہودی تاریخ دان یہوسفس نے بھی کِیا۔
(Jewish War, 7.150, 162)
Canon of Scripture, F.F. Bruce, p. 38

دُرُستگی فرما لیں یہ دعاوی نہیں، تاریخی دلائل ہیں لیکن اگر آپ اپنے کوّے کو سفید کہنے پر ہی تُلے ہوئے ہیں تو پھر 

خِرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے


جن اسینی یہودیوں سے آپ کو بہت ہمدردی ہے ذرا اُن کے متعلق معلومات حاصل کر لیں۔ یہ یہودی فرقہ فقط توریت کو مانتا تھا لیکن پھر بھی جانوروں کی قُربانیوں کے اِنکاری تھے۔ اِن کے صُوفیانہ اور علم الآخرت کے متعلق عجیب و غریب نظریات کی بِنا پر راسخ الاعتقاد یہودی نہیں گردانا گیا 
(بحوالہ Epiphanius of Salamis, Panarion 1:18)

اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم اسینی یہودیوں کو فِٹ کر دیں تو آپ پر لازم ہوتا ہے کہ قادیانوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھائیں۔ اُنہیں بدعتی قرار دینے میں کوئی دِقّت نہیں لیکن اسینی یہودیوں کے ساتھ رعایت برتنے کی توقعات ہم سے لگئے ہوئے ہیں جو اپنے ایمان میں ہی راسخ الاعتقاد نہ تھے۔ دُہرے معیار، دُہرا ثواب!
پہلے بھی یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ کسی بھی اسیسنی یہودی یا وادیِ قمران کے دستاویز میں اِلہامی کُتب کی فہرست بیان نہیں کی گئی۔ اُنہیوں نے اِلہام کا درجہ ہی نہیں طے کیا تو جامنیہ کی کونسل نے اُن کی کُتب کو (اپنے ذوق کے مطابق نہیں) بلکہ روایت پر قائم رہتے ہوئے غیر اِلہامی قرار دیا۔

جن صحائف کو یہودیوں نے رَدّ کر دیا اُنہیں کلیسیا کے سامنے پیش کر کے مسیحیت کی بُنیادیں ہلانے کی سوچ احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ غیر جانبدار علماء نے تو اُن دستاویزات کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اُنہیں غیر الہامی ہی قرار دیا وگرنہ تو آج وہ بھی اُن صحائف کے پیروکار ہوتے۔

میں نے یہ کہا تھا کہ کسی کی بھی حقیقی سکالر نے اِس لٹریچر کو اِلہامی قرار نہیں دیا، بصورتِ دیگر اگر یہ بات جبرائیل فرشے نے آپ کو کہی تو یہ اسلامی نظریہء ختم نبوت کے منافی ہے۔

آپ کی گنگا تو اُلٹی ہی بہتی ہے۔ کلیسیا نے اسینی دستاویزات کو اِس لئے گلے نہیں لگایا کیونکہ اِس سے اُن کا پول کُھل جاتا تھا بلکہ اِس لئے کہ وہ اپنے ایمان کی وجہ سے راسخ الاعتقاد نہ تھے۔ اِسی لئے تو اسینی یہودیوں کے نزدیک عہد نامہء قدیم اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ آپ کو اُن کے نظریات اِتنے ہی بھلے لگتے ہیں تو ۱۱۴ ویں سورہ کے بعد اُن کے دستاویزات بھی قُرآن میں شامل کر لیں، شاید اُن کے غلط نظریات کے رَدّ کئے جانے کا کُچھ ازالہ ہو جائے۔

آپ مسیحیت کو کس منہ سے چیلنج کر سکتے ہیں۔ آپ کے تو اپنی چارپائی کے نیچے گُم شُدہ آیات کی تلخ داستان ہے۔ فہرست طلب کرنا اُس شخص کا حق بنتا ہے جو فہرستِ مسلمہ کے متعلق مسیحی نظریہء اِلہام سے واقف ہو اور آپ تو اُس سے بالکل کورے ہیں۔

لُوقا ۱۱:۵۱ کو ٹھٹھوں میں اُڑا دینا ہی آپ کی بے بسی کا عکاس ہے۔ سنجیدہ قارئین اِسے خُود ساختہ تاویل نہیں گردانیں گیں۔ آپ کو حوالہ بھی دیا کہ کس عالم نے اِس کا ذکر کیا پھر کر دیتا ہوں۔ بلکہ ایک کیا اور بھی علماء کا حوالہ دے دیتا ہوں جو اِس لاتبدلیل حقیقت پر متفق ہیں:

F. F. Bruce, Canon of Scripture, p. 31
R. .P . Lightner, Handbook of Evangelical Theology, p. 21
Ehud Ben Zvi, Perspectives on Hebrew Scriptures, p. 184
Wesley Mountain, Discovering Divine Diamonds, p. 18
William Sanford LaSor, Introducing OT, p. 599

گو کہ فہرست تو بہت لمبی ہے لیکن یہاں پر ہی اکتفا کرنا کافی ہوگا۔ محض ھا ھا ھا کہنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اِس سے واضح ہو گیا کہ آپ تو تنقید برائے تنقید کے لئے الکتاب اور کلیسیائے تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ بصدقِ شوق کریں مگر حقیقت حقیقت ہوتی ہے۔ زیرِ بحث آیتِ مقدسہ میں زکریاہ کون سا تھا یہ ایک اور موضوع ہے جس کو آپ نے بطور راہِ فرار تجویز فرمائی اور اصل موضوع کو ہنسی میں اُڑا کر سُکھ کا سانس لے لیا۔

مقدس یہوداہ حنوک کی کتاب کو مقدس سمجھتے تھے اِس کا ثبوت تو آپ نے دِیا نے البتہ مسیحیوں کو تختہء مشق بنانے پر کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہوا میں باتیں کرنا انتہائی آسان ہے۔ غیر الہامی باتیں الہامی کتب میں نہیں ہو سکتی تو پھر آج آپ ابلیس کی تقریر قُرآن سے نکال دیں کیونکہ وہ تو الہامی بات نہیں کر سکتا۔ مسیحی نظریہء الہام قُرآن جیسا نہیں کہ کوئی نام نہاد شخص کاتب کے سر پر بیٹھ کر ایک ایک نکتہ دیکھ رہا ہو اور پھر رمضان میں چیک کرنے بھی آ جائے اور پھر بھی شیطان کی دی ہوئی آیت کی تصدیق کر لے۔ مسیحی نظریہء الہام تو آپ نے سمجھنا نہیں اِس لئے اُن پر خیانت کا ملبہ ڈال کر دِل کی تسکین فرما لیتے ہوں گے کہ اُنہوں نے من پسند کتب چُن لیں۔آپ کی اِس خود ساختہ تاویل کے مطابق تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ کتب کا چناؤ کوکاف پر ہوا تھا۔

عبرانیوں کے مصنف کا نام بتانے سے کیا وہ کتاب الہامی ہو جائے گی؟ یا اُس کے درجات بلند ہو جائیں گے؟ یہ آپ کے شرائط ہیں کہ راوی متقی ہو عادل ہو پھر اُس کی باتیں مانی جائیں گی۔ مسیحیت مواد کو ملحوظِ خاطر لاتی ہے اِسی لئے تو عبرانیوں کے خط کو شامل کرنے میں کلیسیا کو دِقت محسوس نہیں ہوئی کیونکہ وہ خُدا اور اُس کے مکاشفے کے متعلق درست باتیں فراہم کرتا ہے۔ آپ نے اگر مسیحیت کو اسلامی معیار سے تولنا ہے تو پھر مسیحیت کے اعتبار سے قُرآن کسی گنتی میں ہی نہیں آتی۔

کلمنٹ کے خط کو پڑھ لینے سے وہ الہامی ہو جاتا یہ گُمان ایک مسلمان ہی کر سکتا ہے۔ تاریخ کو پڑھنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو یہ بھی تاریخی امر ہے کہ نو مُرید مسیحیوں کی تربیت کے لئے یہ خطوط پڑھائے جاتے تھے مگر عقائد بیان کرنے کے لئے الہامی کُتب سے رجوع کیا جاتا تھا۔ یہ بات تو اُس وقت کا بچہ بچہ بھی جانتا تھا۔ 

کلمنٹ نے پولس کو اختیار مانا۔۔ اِس طرف آپ آنے سے گُریز کرتے ہیں۔ اِس پر بولتی کیوں بند ہو جاتی ہے؟ پھر تو کلمنٹ کی ہر بات کو حرفِ آخر گردانیں۔ من پسند باتیں ہی کیوں؟ یہی رویہ آپ الکتاب کے ساتھ اپناتے ہیں۔ 

مسیحی نظریہء الہام سے تو آپ کوثوں مِیل دُور ہیں تاہم متعدبہ کلامِ مقدس کا حوالہ دے کر آپ موضوع سے بھی ہٹ گئے۔ زیرِ بحث حوالے میں کُتب کی فہرست موضوعِ بحث نہیں بلکہ نقول کا تذکرہ کیا گیا جو الگ موضوع ہے۔ اُس میں بھی آپ کی تسلی کر دُوں گا لیکن مَیں موضوع سے نہیں ہٹوں گا۔

سُبحان اللہ ! اب یہ عالم ہے کہ آیت الرجم کا موازنہ خُداوند کے جنگ نامے سے ہو رہا ہے۔ خُداوند کے جنگ نامے کو تو کسی نے اِلہامی قرار نہیں دیا البتہ آیت الرجم کے مطابق تو رسولِ اسلام فیصلے کیا کرتے تھے۔ کون کس کو جہنم کا ایندھن بناتا رہا یہ اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ آپ دِل کھول کر ہم پر تنقید کرو۔ آپ کو آئینہ دکھا دیا جائے تو اُسی بائبل کا حوالہ دیتے ہو جس کی بال کی کھال اُتار کر مر کھپ گئے اور کچھ بھی نہ حاصل ہوا۔ آپ کی ساری استدلال کی عمارت دُہرے معیار پر کھڑی ہے اور از سرِ تا پا بے بُنیاد ہے۔ جتنی بھی کُتب کا نام لِیا اُن کا حوالہ ضرور الکتاب میں دیا گیا تاہم اِس بِنا پر اُنہیں اِلہام کا درجہ دینا انتہائی ناقص دلیل اور نظریہء الہام سے لاعملی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک آیت الرجم کا تذکرہ کرنے سے آپ کے پاؤں زمین سے پھسل گئے تو سوچیں۔ پکچر ابھی باقی ہے۔ آیت الکرسی تو اب بھی قُرآن میں موجود ہے جو سستے داموں ابلیس کے ہاتھ سے حاصل کی گئ۔ ابھی تو یمن کے Palamcesst قُرآنی نُسخے کا تذکرہ نہیں کیا اور آپ کو جان کے لالے پڑ گئے۔ 

ہمیں مشورے دیتے ہو کہ اپنی آنکھوں کے شہتیر نِکالیں اور خود اپنے ہاں ہونے والی حماکتیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بائبل مقدس کو تختہء مشق بناتے ہو۔ گویا 
اوروں کو نصیحت اور خُود میاں فضیحت!



عبداللہ غازی کا جواب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔د ل تو نہیں چاہ رہا کہ ایک فضول قسم کے کمنٹس جن میں کام کی بات برائے نام دستیاب ہوں ایسی لایعنی مغلظات کا جواب دوں لیکن ضیافت طبع کے لئے کچھ نہ کچھ لکھنا چاہوں گا۔
1۔ آپ کے فقط کہہ دینے سے ہی آپ جامنیہ سے قبل کا موسیٰ کے دور کا نسخہ فراہم نہیں کرسکتے،میرا چیلنج ابھی تک برقرار ہے اور آپ ابھی تک اس کو پورا کرنے کی ہمت نہیں کر پائے اور ان شاءاللہ کربھی نہیں سکو گے۔جس نحمیاہ کو نبی کہہ کر اور اس کو مکتوب کو بنیاد بنا کر آپ مجھ پر رعب گانٹھنا چاہ رہے ہیں اس نحمیاہ کی حقیقت پر تفصیلی آرٹیکل اسی پیج پر موجود ہے جو کہ ان شاءاللہ آپ کے چودہ طبق اس طرح سے روشن کرے گا کہ آپ نحمیاہ کانام لینا بھی بھول جائیں گے۔فقط نحمیاہ کے خط کا حوالہ دے دینےسے ہی مروجہ عہدقدیم کی کتب مسلمہ نہیں ہوسکتی ہیں جب تک قدیم صحائف اور ان میں شامل کتب کے نام سامنے نہ لائیں جائیں اور ایسا کرنے کی ہمت نہ آپ کے بڑے کرسکیں اور نہ ہی آپ میں ہے۔خالی خولی کے خطوط کا ڈھول مت بجائیں بلکہ نسخوں کے نام اور ان میں شامل کتابوں کی فہرست پیش کریں،میرا یہ تیسری بار تحدی پر مبنی مطالبہ ہے جس سے آپ جناب مسلسل اعراض برتتے اور قارئین کو اپنے کوے کا رنگ بتاتے نظر آرہے ہیں۔امید واثق ہے کہ آئندہ بھی میرے اس مطالبے کو لفاظی کے خوش کن ڈھیر میں چھپادیا جائے گا 
2۔اسینیوں کے بارے میں جاننے کی آپ کو زیادہ ضرورت ہے میرے دوست کیونکہ آپ لوگوں نے تو جنم ہی اسینیت کی کوکھ سے لیا ہے۔ کاش وادی قمران کے صحف کا مطالعہ کیا ہوتا تو ایسی بچکانہ بات نہ کرتے کہ اسینی قربانیوں کے انکاری تھے۔جان الیگرو تو واضح طور پر لکھتے ہیں کہ وہ قربانی کرتے تھے ۔قمران کے کھنڈرات سے برآمدہونے والی جانوروں کی ہڈیاں اس دعویٰ پر دال ہیں۔
3۔ آپ کے نزدیک شاید اسکالر وہی ولایتی عیسائی پادری ہے جو انجیل نویسوں کی طرح بھرپور حماقت کا مظاہرہ کرے چاہے اس کے لئے کتنی ہی ڈھٹائی دکھانی پڑے۔اگر اسینیوں اور ان کے لٹریچر کا مسیحیت سے تعلق نہیں ہے تو ان بارہ مصنفین پر بھی فتویٰ عائد کر دیں جنہوں نے Dead Sea Scrolls and New Testament نامی کتاب مل کر لکھی ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ مسیحی علم الکلام کا ماخذ ایسینی ازم ہی ہے. ان لوگوں میں براؤنلی جیسے کٹڑ قدامت پسند بھی شامل ہیں۔ عجیب صورت حال ہے کہ جو بھی ڈیڈ سی سکرول پڑھتا ہے وہ ایسے ہی نتائج سے آشنا ہوتا ہے. یعنی کہ اب سورج جیسی روشنی کا انکار کرنا پڑے تو وہ کر دیا جائے گا لیکن حقیقت تسلیم نہیں کی جائے گی.
4۔الٹاگنگا تو آپ کے گھر بہہ رہی ہے میرے پیارے! محققین تو ببانگ دھل اعلان کررہے ہیں کہ مسیحیت اور اسینیت ایک ہی تحریک کے دونام ہیں۔
And now that the proven Mother of Christianity is known to have been the prior community of the new covenant commonly called the Essenes, the momentous question challenging the conscience of all Christendom is whether the child will have the grace, courage and honestly to acknowledge and honour its own mother.
اور یہ کہ اب میثاق نو رکھنےوالی ایک جماعت کو مسیحیت کی مسلمہ ماں کی حیثیت سےجاناجانےلگاہےجسے عموماًاسینی جماعت کےنام سےپکاراجاتاہے۔ نہایت چبھتاہواسوال پوری مسیحیت کےضمیر کو للکاررہاہےکہ کیا بچہ اتنی مہربانی ، حوصلہ اور دیانت کا متحمل ہے کہ وہ اپنی ماں کو پہنچانے اور اس کا جائزمقام دے۔ The Last Years of Jesus Revealed,pg10,C.F.Potter
آپ کے نام نہادولایتی اندھے اسکالرز آپ کے باطل مؤقف کے مؤید بن کر ایسے اندھے رہنما کا کردار ادا کررہے ہیں جوخود تو ہلاکت کافرزند بن رہاہے مگر ساتھ میں آپ کی کھاٹ بھی مفت میں کھڑی کررہا ہے۔ آپ کی بدحواسی کہ آپ جتنے بھی اسکالرز کے حوالہ جات دے رہے ہیں ان میں سے ایک بھی وادی قمران کے صحائف پر اتھارٹی نہیں رکھتا۔ہمت ہو اور جیب میں دم ہو تو زرا جان الیگرو، ایڈمنڈ ولسن، جیمز چارلس ورتھ، گیزا ورمس، ہائم مکابی، ہیو جے شون فیلڈ ،باربراتھیئرنگ وغیرہ کو بھی پڑھئیے ان شاء اللہ پولوسیت کا بخار سر سے اتر کر تکملہ تشفی ہوگی۔

5۔ایسی بات نہیں کہ اسینی یہودیوں کے نزدیک عہدنامہ قدیم کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا لیکن وہ اس کو وہ اہمیت نہیں دیتے تھے جو آج کے دیسی عیسائی منوانے کے لئے تڑپتے ہیں۔ مقدس متون کی نقول تیار کرنے میں بالکل آزاد تھے یہی وجہ ہے کہ قمرانی متون اور مروجہ متون میں بعدالمشرقین ہے جس کا حوالہ میں گذشتہ کمنٹ میں دے چکا ہوں اور آنجناب نے اس پر سکوت اختیار کرنے میں عافیت سمجھی۔اسینی مواد کاالحاق بائبل کے ساتھ کرنے کی ضرورت آپ کو ہے کیونکہ یسوع مسیح سمیت جمیع شاگرد اسی اسینی تحریک کے خوشہ نشیں تھے۔لہذا یسوع جس طرح یسوع کی صداقت کی ساری رسیاں عہدقدیم کے کھونٹے سے بندھی ہوئی ہیں باوجود اس کے کہ یہودی آج بھی عہدقدیم میں یسوع کی موجودگی کے منکر ہیں۔تواس صورت میں تو آپ حق بجانب ہیں کہ اسینی مواد کو بائبل کے ساتھ شامل کرلیں۔ لیکن ایسا کرنے کی ہمت پوری عیسائی دنیا میں نہیں ہے۔
6۔لوقا 11:51 سے عہدقدیم کی صداقت برآمد کرنے سے قبل خود اس فقرے کی صداقت تلاش کرلیتے تو ایسی احمقانہ بات کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ انجیل نویس نے عیسائیوں کو احمق سمجھ کر ایک فقرہ لکھ دیا اور عیسائیوں نے آنکھیں بند کرکے ان اندھے الفاظوں پر یقین کرلیا توضروری نہیں کہ عیسائیوں کا مخاطب بھی اسی مقدس حماقت کا مظاہرہ کرے۔انجیل نویس تو ہمیشہ وہ الفاظ یسوع کے منہ میں ڈالتا ہے جس سے وہ اپنے من مانے نتائج برآمد کرسکے؟اگر اس فقرہ میں مذکورہ زکریا،زکریا بن برکیاہے (جوکہ آپ کا مطمع نظر ہے)تو ان کے قتل ہونے کا ٹھوس تاریخی ثبوت(پوادرانہ تشریحات وماخذات سے اجتناب برتتے ہوئے) درکار ہے بصورت دیگر اس آیت کا مصداق زکریاہ بن یہودیع ہے لیکن اس کی زکریاہ کا مرجع بنانے کی صورت میں آپ پھر اس سے 39کتب برآمد نہیں کرسکتے۔ ھالی لویا ھالی لویا
7۔ کتنی عجیب بات ہے کہ عہدجدید میں جن جن کتب سے اقتباسات پیش کئے گئے ہیں وہ سب کتب وادی قمران سے دستیاب ہوکر عیسائیوں کی علم دشمنی اور سچائی کے قتل پر ماتم کررہی ہیں۔یہودا اقتباس تو عہدجدید میں کررہاہے لیکن حنوک کی کتاب اسینی لٹریچر سے نمودار ہورہی ہے۔4:5 میں دیا گیااقتباس اسینی صحیفہ دستور العمل سے کیوں برآمد ہورہاہے؟رومیوں7:19-24 اور اسینی شکرانے کے زبور میں یکسانیت کیوں ہے؟

8۔ اب زرا اپنی اصلیت اور حقیقت بھی وادی قمران کے صحائف پر اتھارٹی اسکالر باربراتھیئرنگ کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔
It soon became apparent to those studying the scrolls that the writers were similar in many ways to the early followers of Jesus Christ....For instance, the two groups, the Qumran Sect and early Christians, lived in the same small area at about the same time. Both met every day for a sacred meal of bread and wine to which only initiates were admitted. Both practised community sharing of property, a most unusual practice for Jews. Both valued celibacy, the Qumran sect very strongly, the Christians moderately. Both used baptism as a method of initiation, and both looked forward to a coming apocalyptic crisis which would usher in a new messianic age. They used the same names for themselves: both called themselves’’ the Way’’, ‘’ the New Covenant’’,’’ the Sons of Light’’. Both had a branch in Damascus, again using the name’’ the Way’’. They were governed by bishops, who had similar functions in both cases. Each lived in expectation of a New Jerusalem, with an identical architectural plan: foursquare, with three gates on each side, for the twelve tribes. They have numerous terms in common, with closely parallel passages in both sets of literature
ان طوماروں کامطالعہ کرنےوالوں پربہت جلد یہ بات آشکارہوگئی کہ ان طوماروں کےلکھاری یسوع مسیح کےاولین پیروکاروں سےکئی باتوں میں شدید مماثلت رکھتےتھے۔۔۔۔مثال کےطورپردونوں گروہ،قمرانی فرقہ اور اولین مسیحی،ایک ہی چھوٹےسے علاقےمیں ایک ہی وقت میں زندگی بسرکررہےتھے۔دونوں گروہ روزانہ روٹی اورمےپر مشتمل اس مقدس کھانےکےلیےجمع ہوتے تھے جوصرف باضابطہ ارکان کےلیےہی مخصوص تھا۔دونوں جماعتوں میں دنیاوی مال واسباب مشترکہ طورپرجماعتی ملکیت میں رکھنےکارواج تھا۔یہ بات یہودی معمولات سےنہیں تھی۔ دونوں جماعتیں تجردکوخاص قدرکی نگاہ سےدیکھتی تھیں۔اگرچہ قمرانی اس میں متشددتھےلیکن مسیحی اعتدال پسند۔دونوں جماعتوں میں باضابطہ نومریدبنانےکےلیےاصطباغ کی رسم رائج تھی۔دونوں جماعتیں آنےوالےایام میں سخت تباہی کےبحران کاالہامی تصوررکھتی تھیں جسےدَور مسیح کانقیب ہوناتھا۔دونوں جماعتوں کےنام یکساں تھے۔دونوں جماعتیں خودکوالصراط،نیاعہدیاپھر فرزندان نورکےناموں سےموسوم کرتی تھیں۔دونوں کی ذیلی شاخیں دمشق میں تھیں جنہیں وہ الصراط کانام دیتےتھے۔ان کےمذہبی عمال ہی ان کےاصل حکمران تھے۔دونوں جماعتوں میں بشپ کاکرداریکساں تھا۔دونوں جماعتیں ایک نئےیروشلیم کی آس میں زندہ تھیں۔ اس نئےیروشلیم کاوہ یکساں تعمیراتی خاکہ رکھتیں تھیں جس کےمطابق چاردیواری میں ہرچہارجانب تین دروازےرکھےجانےتھےجوکہ اسرائیل کےقبائل کےشمارکےمطابق ہوتے۔مذہبی ادب میں ان کےہاںمماثل اصطلاحات کی کثیر تعداد رائج تھی Jesus the Man Page 13
میرا خیال ہے ابھی کے لئے اتنا ہی کافی ہے اب اگر آپ کی طرف سے مزید مقدس ڈھٹائی کا مظاہرہ ہوا تو دوبارہ بھی اچھی خاصی خاطر مدارت کرائی جاسکتی ہے۔

9۔ نجانے کیوں آپ کے ہذیان پر مسکرانے کادل چاہ رہاہے ۔آپ نے لکھا کہ عبرانیوں کے مصنف کانام بتانے سے کیاوہ کتاب الہامی ہوجائے گی؟ایک طرف آپ عبرانیوں کے مصنف کانام بتانے میں اپنی پوری مسیحی برادری سمیت ناکام ہیں لیکن چور مچائے شور کے مصداق روح الجہالت یافتہ ہونے کا بھرپور مظاہرہ کیا جارہاہے۔یعنی کلیسیاء کے نزدیک ایک خط کو بےنام ونسب اور بغیر کسی اتہ پتہ کے الہامی تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں؟اگر آپ کے نزدیک الہام کا یہی معیار ہے تو اس کامطلب یہ ہواکہ مسیحیت کی صداقت کےلئےدلائل جہاں سےبھی مہیاہوں لےکرکسی مقدس ہستی کی طرف منسوب کرکےکتاب ِ مقدس میں جگہ دینےمیں کوئی مضائقہ نہیں۔اورمسیحی مؤمنین کےلئےلازم ہےکہ مقدس جھوٹ پرایمان رکھیں اورہراُس معقول دلیل کوردکردیں جواس واردات کاپردہ چاک کرنےوالی ہو۔
10۔ کلیمنٹ کا خط،ہرمس کا چرواہا،برنباس کا خط وغیرہ وغیرہ اگر الہامی نہیں توپھر قدیم نوشوں میں ان کی موجودگی کیا معنی رکھتی ہے؟لایعنی باتوں سے پرہیز کرتے ہوئے واضح جواب دیں۔اور میں اپنا چیلنج پھر دہرا دوں کہ ان قدیم عبرانی ویونانی نسخوں اور ان میں شامل کتب کی فہرست شائع کریں تاکہ سب کو پتہ چلے کہ کون کون سی کتابیں مقدس متون کا حصہ رہے چکی ہیں اور کن کن کتب کو پولوسی نظریات کے اثبات میں مقدس متون سے خارج کردیا گیا۔
11۔ اگر دنیا بھر کی تمام کتابیں قرآن مجید سمیت غلط ہوجائیں تب بھی بائبل سچی نہیں ہوسکتی۔ یہ ہذیان پر مبنی لفاظی اور بدزبانی آپ کو ہی مبارک ہو کیونکہ آپ کے عہدجدید کاخوش کن عقیدت پر مبنی حقیقت میں گذشتہ کمنٹ میں واضح کرچکا ہوں جس کو کان ہوں وہ سن لے۔اور ویسے بھی لایعنی ہفوات بکنے اور بونگیاں مارنے کے میدان میں میں آپ کو اپنا گرو تسلیم کرچکاہوں لہذا گرو جی اپنے سر سے اسلام کے خلاف ہذیان کو دور کرکے کام کی بات کیجئے گا بصورت دیگر مغلطات پرمبنی کمنٹ مجھے ڈلیٹ کرنا پڑ جائے گا۔


دیسی عیسائی عاشر آگسٹن  کا کمنٹ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

آپ کا تو کمنٹس پر خاموشی اختیار کرنے کا خیال تھا لیکن مجھے تو اِس نام نہاد پیج پر ہی تبصرہ کرنا فضول معلوم ہوتا ہے۔ تَو بھی یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ جن کی عقلوں کو ابلیس نے اندھا کر دیا ہے اُن کو راہِ راست پر لائیں۔

مَیں نے اپنے گذشتہ سے پیوستہ کمنٹس میں یشوع بن سراخ کی گواہی کے متعلق کُتبِ عہد قدیم کی فہرست پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرآپ کے اندر اخلاقی جُرآت ہے تو اُس کی تردید کریں۔ وہ چیلنج بھی اب تک برقرار ہے۔ جامنیہ کی کونسل سے پہلے آپ کو ثبوت درکار تھے، جب دیئے گئے تو اُس پہ اعتبار ہی نہیں کیا۔ شاید اِس لئے کہ وہ وادیِ قمران سے نہیں مِلے لیکن اِس سے آپ حقیقت سے رُو پوش نہیں رہ سکتے۔

مسیحیت کی مُخالفت کے جنون میں آسمان اور زمین کے قلابے مِلاتے ہوئے آپ نے یہ تک کہہ دیا کہ کوئی فہرست نہیں جس میں کُتب کے نام ہوں۔ اتنی لاعلمی اور جہالت آپ ہی سے نِکل سکتی ہے۔ ۱۳۲ قبلِ مسیح میں جن شواہد کا ذکر کیا گیا اُس میں ’’تنخ‘‘ کا ذکر موجود ہے جس سے آپ واقف نہیں۔ یہودی بائبل کو ’’تنخ‘‘ کہا جاتا ہے جس سے مُراد ہے ’’توریت، انبیاء، اور تواریخی کُتب‘‘۔ یہ سہ حصہ تقسیم قبل از جامنیہ کونشل یہودی کر چُکے تھے۔ ۱۳۲ قبلِ مسیح میں سب سے پہلے اِس تنخ کی وضاحت بطور کُتب کا نام لے کر کی گئی ہے۔ اب اگر آپ اُسے جاننے سے قاصر ہیں تو اِس کا ملبہ جامنیہ کی کونسل پر ڈالنے کی کوشش کرنے کی بجائے تاریخ کا بغور مطالعہ کریں۔ تیسری دفعہ آپ کو دستاویز کا نام بتا رہا ہوں اگر انگریزی میں سمجھ نہیں آئی تو اب اُردو میں لکھ دیتا ہوں:

Prologue of Ecclesaisticus: Tanakh 
Torah (law)- Genesis, Exodus, Leviticus, Numbers, Deuteronomy (5 books)
Nebiim (prophets)- Joshua, Judges, Samuel, Kings, Isaiah, Jeremiah, Ezekiel, Minor Prophets (8 books)
Ketubim (writings)- Psalms, Proverbs, Job, Song of Songs, Ruth, Lamentations, Ecclesiastes, Esther, Daniel, Ezra-Nehemiah, Chronicles (11 books)

سیراخ کی کتاب کے یُونانی نُسخے کے دیباچے میں اِن کُتب کی فہرست دی گئی ہے:
توریت کی پانچ کُتب: پیدائش، خروج، احبار، گنتی، استثنا
انبیاء کی ۸ کُتب: یشوع، قضاۃ، سموئیل (۱ اور ۲ بطور ایک کتاب)، سلاطین (۱ اور ۲ بطور ایک کتاب)، یسعاہ، یرمیاہ، حزقی ایل، انبیاء اصغر (عبرانی بائبل میں انبیاء اصغر کو بطور ایک کتاب شمار کیا جاتا ہے)
تواریخی کُتب (اِن ۱۱ کُتب میں شاعری کی کُتب میں شامل ہیں): زبور، امثال، ایوب، غزل الغزلات، رُوت، نوحہ، واعظ، آستر، دانی ایل، عزرا۔نحمیاہ (بطور ایک کتاب)، تواریخ (بطور ایک کتاب)۔

یہ عبرانی بائبل کی ۲۴ کُتب اور پُرانے عہد نامے کی ۳۹ کُتب سن ۱۳۲ قبلِ مسیح میں سیراخ کی کتاب کے یونانی نُسخے کے دیباچے میں مندرج ہیں اور آپ کا منہ چِڑا رہی ہے (بحوالہ Canon of Scripture, F. F. Bruce, صفحہ ۲۹۔۳۱، سنِ اشاعت: ۱۹۸۸)۔ علاوہ ازیں آپ کو مشنا کا بھی حوالہ دیا تھا جس میں اِسی تنخ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

اگر آپ میں جُرآت ہے تو اِس کی تردید کریں۔ اِسی تنخ کی تصدیق یہودی مؤرخ یہوسفس نے بھی کی۔ اور بعد ازاں کونسل آف جامنیہ نے اِسی روایت کو بر قرار رکھا۔


اسینی یہودیوں کے متعلق آپ نے بڑا شور و غل مچایا لیکن اُن کی جانب سے فہرست پیش کرنے سے قاصر رہے جنہیں وہ اِلہامی کُتب شمار کرتے تھے۔ اسینیوں کو آپ نے مسیحیت کی بُنیاد قرار دے کر تاریخ کو اپنے پاؤں تلے روندا ہے۔ اسینیوں نے تو بعد ازاں مسیحیت میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور مسیحی تعلیمات کو قبول کر لیا تھا. 
(Christian David Ginsburg, The Essenes: Their History and Doctrines, p. 27)

بلکہ اسینی فرقہ تو جسم کی قیامت کے انکاری تھے جس کی تعلیم مسیح یسوع اور رسولوں نے دی۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ اُن کی اکثریت اسینی مکتبہء فکر سے تھی؟
(حوالہ مذکور صفحہ ۲۵)

بائبل مقدس کو سمجھنے میں تو جہلہء مطلق مسلمان ہمیشہ قاصر رہے ہیں، لُوقا ۱۱:۵۱ کی صداقت پر اعتراض کر کے موصوف صدقہء جاریہ کا ثواب کمانے میں مصروفِ عمل تو نظر آتے ہی ہیں۔ ایسے شوقیہ فنکار کو انجیل نویسوں سے خُدا واسطے کا بیر ہے لیکن اسینی یہودیوں کو تو اہلِ کتاب کہنے کے لئے بھی تیار ہو جائیں گے۔ 

عہد نامہء قدیم میں صرف قمرانی دستاویزات کا حوالہ نہیں دیا گیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر اپاکریفا کے بھی اقتباسات ملتے ہیں، مگر اِس وجہ سے کوئی احمق ہی اُنہیں الہام کا درجہ دے گا۔ مسیحی نظریہء الہام یہ نہیں کہ جس کتاب کا اقتباس دے دیا گیا وہ الہامی ہو گئی۔ (بحوالہ Canon of Scripture, F. F. Bruce, صفحہ ۴۸۔۵۲)۔

عبرانیوں کے خط کا مصنف بتا نہیں پا رہی کیونکہ اِس سے اُس کے مسلمہ ہونے پر فرق نہیں پڑتا لیکن مسلمانوں کی طرح بعد میں اُسے لقب تو نہیں دیئے۔ جن سورتوں کو رسولِ اِسلام نے نام نہیں دِیا اُن کو لقب فراہم کرنے کا ٹھیکا جہلہء مطلق نے لیا اور پھر بھی اِلہام قرار دیتے ہو۔ اگر مصنف کے تعین میں مشکل ہی کسی کتاب کو غیر الہامی قرار دینے کا سبب ہے تو یہ انتہائی ناقص دلیل ہے۔ کلیسیا نے اِس خط کو روح القدس کی راہنمائی سے الہامی تصور کیا کیونکہ اِس کا مواد اِس بات کی دلالت دیتا ہے کہ یہ اِنسانی اخراع کا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔

پولوسیت کا بخار تو اُن پر تاری ہوا ہے جنہیں اُس سے خُدا واسطے کا بیر تھا۔ اگر کلیسیا دیگر خطوط کو پڑھتی تھی تو اِس کی وجوہات پہلے سے بیان کر دی گئیں ہیں۔ اِس کا اِلہامی کتب سے تعلق نہیں بلکہ نو مُرید مسیحیوں کی تربیت زیرِ بحث ہے۔ تاریخ بھی اِسی حقیقت کی تصدیق کرتی ہے۔

جب اِسلام کا موضوع چِھڑ جاتا ہے تو وہ بدزُبانی کے زمرے میں آ جاتا ہے۔ آپ کی اِس سوچ کو ۲۱ توپوں کا سلام۔ دُہرے معیار رکھنے میں آپ کا کوئی ثانی نہیں۔ آپ میں جُرآت ہے تو آیت الکُرسی کو قُرآن سے نِکالیں ورنہ اِبلیس کی نازل کردہ آیت کی تلاوت کریں اور جہنم کا ایندھن بنیں۔ بصورتِ دیگر آپ کا کمنٹ ڈیلیٹ کرنا ہی آپ کی بے بسی کا عکاس ہوگا۔ مَیں نے صرف ایک نُکتہ اِسلام کے متعلق عیاں کِیا اور آپ سچائی کو دُبانے کے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر مجبُور ہو گئے۔ بصدقِ شوق کمنٹس ڈیلیٹ کر دیں مگر سچائی کو ڈیلیٹ کر کے دکھائیں۔ اور اگر تھوڑی سی بھی جُرآت ہے تو آیت اُلکُرسی ڈیلیٹ کر کے دِکھائیں۔ آپ نے بے بُنیاد باتوں کے انبار لگا دیئے، اُن کو ڈیلیٹ کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ دُنیا کی کُتب بشمعول قُرآن تو جھوٹ پر مبنی ہیں ہی، فقط بائبل ہی بدرجہ اُتم خُدا کے مکاشفے کے نزول کا واحد ذریعہ ہے۔



مسلمان عبداللہ غازی کا جواب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابتداء سے مقدس بدزبانی کرنے کا شکریہ! یاددہانی کرادوں کہ ابلیس نے تو ان کی عقلوں کو اندھا کیا ہے جو ایک غیرالہامی مغلظات کو الہام کے نام پر قبول کئے بیٹھے ہیں شایدیہ اندھے حروفوں کی ہی برکات ہیں۔
1۔جس 132ق م کے حوالے پر آپ اتنا سینہ چوڑا کررہے ہیں اس کی حیثیت اسینی صحائف کے آگے کچھ نہیں کیونکہ اسینی صحائف کا زمانہ دوسو سے تین سو قبل مسیح کا ہے۔بحوالہ The Ancient library of Qumran Page 89 حیرت کی بات ہے کہ مچھر کو تولنے والے بغیر ڈکار کے پورا کا پورا اونٹ ہضم کررہے ہیں لیکن سچائی کو قبول نہ کرنے کی ازلی مسیحی فطرت پر عمل پیرا ہیں۔جب جامنیہ کونسل اور 132 ق م سے قبل یہودی بہت ہی دیگر کتب سے بطور مقدس نوشتے واقف تھے تو اس کے آگے آپ کے چارسوسال بعد منعقد ہونے والی جامنیہ اور 132 جیسے ڈیڑھ سوسال بعد لکھے جانے والے ڈھونگی حوالہ جات کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی بلکہ الٹا اسینی لٹریچر سچائی کو عیاں کرکے آپ کا ہی منہ چڑا رہاہے۔ھالی لویا
2۔اسینی لٹریچر کی فہرست میں شامل چند کتب کے حوالہ جات اوپر درج کرچکا ہوں لیکن جس کی آنکھوں کو دنیا کے سردار نے سچائی قبول کرنے سے روک دیا ہو وہ دیکھتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ خیر سے چند کتب کے نام مزید پیش کردیتا ہوں۔ان کی تصدیق ایڈمنڈولسن اور باربراتھیئرنگ کی کتب سے کی جاسکتی ہے۔
1۔صحیفہ دستور العمل2۔صحیفہ دمشق3۔شکرانے کے مناجات4۔لاوی بن یعقوب کا عہدنامہ5۔یشوعاکےزبور6۔یروشلم کا بیان7۔کاہنوں کے لئے ہیکل کا دستورالعمل8۔ کتاب نوح9۔حنوک کی کتاب10۔بشارات مسیح11۔مکاشفات جوبلی12۔امثال وبرکات13۔ محامد14۔طوبت15۔سیراخ16۔نفتالی بن یعقوب کا عہدنامہ17۔کلام میکائیل18۔جوبلی19۔کتاب الاسرار20۔سلیمان کے زبور
یہ تو فقط 20 کتب کے نام آپ کی پولوسی فطرت کی تشفی کے لئے دیئے ہیں وگرنہ تو ان کتب کی تعداد 50 سے زیادہ ہے جو مسیحیت کے بانی اسینیوں میں بطور کلام مقدس مروج رہ چکی ہیں۔اب اگر آپ جیسے دیسی عیسائی جتنا ہی شور مچالیں کہ اسینیوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تو اس سے سورج جیسی حقیقت چھپ نہیں سکتی ہے۔
3۔اسینیت سے انکار کرکے تاریخ کو تو آپ روند رہے ہیں سرکار۔حقائق سے چشم پوشی کبھی بھی یسوع کی تعلیم نہیں رہی ہے لیکن شاید یہ پولوسی تعلیم ہے جبھی آپ کو نہ تو یسوع اور یوحنااصطباغی کا اسینی طرز زندگی نظر آتا ہے اور نہ ہی ان کے کلام میں موجود اسینی اصطلاحات کا بےدریغ استعمال۔یوحناجب تک منادی کرتے رہے یسوع اسینی نظم پر عمل پیرا بالکل خاموش اور جیسے ہی یوحناگرفتار ہوئے تب یسوع نے منادی شروع کردی۔دونوں ہی خداکی بادشاہی کی منادی کرتے تھے جو کہ ایک خالصتاً اسینی اصطلاح ہے۔یوحنا نبی اور یسوع سمیت جمیع شاگردان نے تجرد کی زندگی گزاری، اسینیوں کے علاوہ کوئی یہودی فرقہ تجرد پر اتنی سختی سے عمل پیرا نہیں رہا۔تمام شاگردوں کا اشتراک اموال سوفیصد اسینی طریقہ تھا کیونکہ اسینی بھی اسی طرز کے حامل تھے۔ایک اسینی گروہ میں بارہ افراد سے پندرہ افراد ہوا کرتے تھے بالکل یہی تعداد شاگردوں کی نظر آتی ہے حتی کہ یہوداہ اسکریوطی کے موت کے بعدبھی شاگردوں نے اس تعداد میں کمی نہیں ہونے دی۔اسینی صحیفہ دمشق اور دستورالعمل میں مذکور "مبقر"اور مسیحیت کا بشپ دونوں ہی ایک ہی منصب کے دونام ہیں۔ایک جھوٹ کے پرچار کے لئے کتنے جھوٹ پر بول کر سچائی پر پردہ ڈالیں گے؟یوحنا کی انجیل پڑھیں اور اسینی صحیفہ دستورالعمل میں موجود اسینی اصطلاحات پڑھیں۔راہ حق اور زندگی، نور کے فرزند اور تاریکی کے فرزند،زندہ پانی کے چشموں کا جاری ہونا یہ سب اسینی اصطلاحات نہیں تو پھر کیا ہیں؟اگر اسینیت سے اتنی ہی چڑ ہے تو پہلے یوحنا کی انجیل کو اس بائبل سے خارج کریں جس کو الہامی قرار دے کر لوگوں کو مقدس دھوکہ دیا جارہاہے۔آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اور آ پ کے مؤید ولایتی پادریوں کے جہالت پر مبنی بونگیوں کو ہی حقائق کا نام دے دیا جائے لیکن ایسا ہونا ناممکن ہے۔دیکھتے ہیں کہ ایک سچائی کو چھپانے کے لئے مزید کتنے جھوٹ بولیں گے آپ؟
4۔ لوقا11:51 کے بطلان ہوتے ہی آپ کی ہذیانی طبیعت انقباض کا شکار ہوگئی جبھی ہفوات بک پر آپ اپنی خفت مٹارہے ہیں خیر ہے۔بچہ سمجھ کر چھوڑ دیا اور ساتھ ہی مسکراہٹ کا تحفہ بھی۔
5۔عہدنامہ قدیم وجدید میں بےشک اپاکریفل کے حوالہ جات ملتے ہیں لیکن ان کتب کو اپاکریفل ٹھہرا کس نے؟کیا انہوں نے جو یہ اقتباس منقول کررہے تھے ؟ہرگز نہیں وہ بھی ان اقتباسات کو کتاب مقدس سے منصوب کرتے ہیں،ان حوالہ جات کو اپاکریفل ٹھہرانا تو سب بعد کی گھڑنٹیں ہیں جن کا مصنفین عہدجدیدوقدیم سے دور کا بھی تعلق نہیں۔
6۔عبرانیوں کے خط کے مصنف کا نام تو آپ نہیں بتاسکتے لیکن منہ میں چمڑے کی زبان رکھ کر بدزبانی کا اعلیٰ مظاہرہ تو آپ کرسکتے ہیں اور مسلسل وہی کررہے ہیں۔روح القدس کی رہنمائی وغیرہ کے سب ڈھونگ کا پردہ میں گذشتہ کمنٹ میں ہی چاک کرچکا ہوں لہذا یہ مقدس جھوٹ بول کر آپ دنیا کو تو بےوقوف بناسکتے ہیں لیکن مجھے نہیں۔
7۔یہ کس نے کہہ دیا کہ آیت الکرسی شیطان دے گیا؟اگر آپ کے پاس موبائل ہو اور چلانے کا طریقہ نہ ہو اور کوئی شخص آپ کو آکر طریقہ سکھادے تو اس کا مطلب یہ کہاں سے برآمد ہوگیا کہ آپ کو موبائل اسی شخص نے دیا ہے؟لیکن جہاں عقل ودانش سے بہرورپولوسی عقل ہو تو وہاں ایسی احمقانہ نتائج اخذ کرنا قیاس سے بعید نہیں۔ہاں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ جن لوگوں کے خدا کوشیطان سارے اختیارات کے ساتھ لالچ دے رہاہو وہی ایسے احمقانہ وجگ ہنسائی کا باعث بننے والے من گھڑت نتائج برآمد کرسکتے ہیں۔
8۔ دنیا کی تمام کتب بشمول قرآن جھوٹ پر مبنی ہیں؟ھاھاھاھا اس مقدس تحدی پر مبنی جھوٹے دعوے کا پول بھی بزبان چرچ میں کھول چکا ہوں لیکن جب ایک شخص فریسیانہ منافقت پر اتر کر اعلیٰ ترین ڈھٹائی کا مظاہرے کرے تو سنت یسوع پر عمل کرتے ہوئے فقط یہی کہہ دینا چاہیے کہ ایسی ہفوات بکنے والے بدکاروں کو ایک ہی نشان کے سوا اور کوئی نشان نہیں دیا جائے گا۔ ھالی لویا


دیسی عیسائی عاشر آگسٹن  کا کمنٹ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

بد زُبانی کے ساتھ ساتھ جہالت کے جوہر بکھیرنے کا بھی شکریہ۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ابلیس نے اُن جہلہء مطلق کی عقلوں کو اندھا کر دیا ہے جو اُس کی پیش کردہ آیات کو کلامِ اِلٰہی سے منسُوب کرکے الہام کا درجہ دے کر گُونگے حرفوں کی تلاوت کرتے ہیں۔

پہلے تو آپ دُہرے معیار کے حامِل تھے لیکن اِس شعبے میں ترقی کرنے کی غرض سے بے شُمار معیار کے حامل ہو گئے۔ پہلے للکارتے رہے کہ سن ۷۰ سے پہلے کوئی فہرست لے کر آو میرا چیلنج ہے جب منہ کی کھانی پڑ گئی تو فرما دیا کہ اِس کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ ضرور جہلہء مطلق کی نظر میں اُس کی کوئی حیثیت نہیں لیکن سنجیدہ قارئین کے لئے یہ اہم سنگِ مِیل ہے۔ علاوہ ازیں جب Antiochus IV نے یہودیوں کے مقدس صحائف کو مٹانے کا بیڑا اُٹھایا تو یہوداہ مکابی نے فوراً عہدِ قدیم کی کُتب کی فہرست محفوظ کر کے یہودیوں کے صحائف کی روایت کو بر قرار رکھا۔ اور یہ تو ۱۳۲ ق۔م سے بھی پہلے سن ۱۶۴ قبلِ مسیح کا واقعہ ہے۔ 
(بحوالہ Z. Leihman, The Canonization of Hebrew Scripture, p. 30)

اسینی دستاویزات کے متعلق آپ جتنا بھی شور مچالیں آپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب تک آپ کوئی فہرست پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں اور کُتب کا نام لیتے رہے۔ ذرا غور کیجیئے وادیِ قُمران سے ملنے والے دستاویزات کی داستان:

اسینیوں کی زیرِ استعمال ایسی کُتب بھی تھیں جو مسیحی حلقوں میں کبھی زیرِ اِستعمال نہ تھیں اور اِسی طرح کچھ ایسی مسیحی کُتب بھی تھیں جو اسینیوں کے زیرِ استعمال نہ تھیں۔ پس مسیحیوں نے سارا غیر الہامی لٹریچر اسینیوں سے اخذ نہیں کیا۔ تمام اپاکریفل کُتب وادیِ قُمران سے نہیں ملیں۔ حنوک کی کتاب، لاوی کا عہد نامہ، نفتالی کا عہد نامہ، جوبلی، ۱۲ آبائے قدیم کا عہد نامہ نامکمل حالت میں دریافت ہوئے ہیں۔

The Canon Debate, Lee Martin McDonald

لیں جی آپ کی ہر دیل عزیز اسینی کُتب میں سے بعض تو نامکمل ہیں اور آپ چلیں ہیں اِنہیں اِلہام کا درجہ دینے! یہ آپ جیسا احمق ہی اِن کو اِلہام کا درجہ دے گا جو کتاب مکمل ہی نہ ہو۔ آپ چاہے بال کی کھال اُتار لیں تمام ثبوت آپ کے فرسُودہ نظریات کو طشت از بام کر دیں گے۔

اسینیوں کو مسیحیت کا بانی قرار دے کر آپ بصدقِ شوق اپنے اُوپر غضبِ اِلٰہی تاری کروانے پر تُلے ہیں۔ حیرت ہے کہ کسی بھی شاگرد یا کلیسیائی آبا نے مسیح یسوع کو اسینی مکتبہء فکر سے منسُوب نہیں کیا باوجودیکہ اُن کی خُصُوصیات پر لاتعداد روشنی ڈالی گئی۔ جس طرح قُرآن نے بائبل کے واقعات کو مِلا کر ایک معجون تیار کردیا ہے اُسی طرح موصوف نے اسینیت کی کڑیوں کو شاخِ مسیح کے ساتھ مِلانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ محض کسی کے مروجہ الفاظ، اصطلاحات اور رسومات اپنانے سے اگر دو فرق چیزوں میں امتیاز نہیں کیا جا سکتا تو یہ بصیرت کا فقدان ہے۔ میرے نزدیک ہندوؤں کے سات چکر اور مسلمانوں کے حجرِ اسود کے گِرد سات چکروں میں رَتی برابر فرق نہیں تَو بھی مَیں یہ نہیں کہُوں گا کہ یہ دونوں رسومات ایک ہیں۔ میرے نزدیک زمانہء جاہلیت کے حج اور مسلمانوں کے حج میں ذرا برابر فرق نہیں تو بھی مَیں دونوں کو ایک نہیں کہُوں گا۔ میرے نزدیک عید الاضحیٰ کی قُربانی اور picnic party میں کوئی فرق نہیں تو بھی مَیں دونوں کو ایک نہیں کہُوں گا۔ حیرت ہے آپ بصیرت سے اِتنے محروم ہیں کہ دو چیزوں میں اِمتیاز نہیں کر سکتے، کثیف کو لطیف سے جُدا کرنے سے قاصر ہیں، کھرے اور کھوٹے میں تمیز نہیں کر سکتے۔ 

مسیح یسوع کے صرف ۱۲ شاگرد نہیں تھے۔ اُن کے شاگردوں کے مختلف حلقے تھے۔ یہ تو آپ کی لاعلمی کا عالم ہے۔ اُن کے ۱۲ شاگرد (متی ۱۰:۱)، ۷۰ شاگرد (لُوقا ۱۰:۱)، ۳ خاص شاگرد (متی ۱۷:۱)، اور ۲ خُفیہ شاگرد (یوحنا ۱۹:۳۸) بھی تھے جو اسینیت سے قطعاً مماثلت نہیں رکھتے۔

گو کہ اپاکرفا کو بعد میں یہ حیثیت دی گئی تاہم اُنہیں کسی نے اِلہامی درجہ بھی نہیں دِیا۔ اور اُس کی وجہ یہ تھی کہ اپاکریفل لٹریچر خُود اپنے آپ کو اِلہامی نہیں منواتا تبھی تو کلیسیا کو اِس کی شناخت کرنے میں دِقّت محسُوس نہ ہوئی۔ 

لُوقا ۱۱:۵۱ کو بُطلان وہی قرار دیں گے جو احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اِس آیت کے متعلق علما کی کثیر تعداد (صرف راسخ الاعتقاد مسیحی ہی نہیں) متفق ہے تو آپ اب دُوسروں کا شگون بِگاڑنے کی خاطر اپنے لئے عاقبت کا عذاب مول لینا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ۔

آپ کو مقدس جھوٹ بتا کر مَیں بیوقوف نہیں بنا سکتا، یہ بات دُرُست ہے۔ آپ تو پہلے ہی مقدس جھوٹ پر عمل پیرا ہیں جو شیطانی آیات کی قرأت فرماتے رہتے ہیں۔ اِس سے بڑا مقدس جھوٹ اور ہو ہی نہیں سکتا۔

مسیحی تعلیمات سے آپ بالکل کورے ہیں یہ تو ثابت ہو چُکا ہے، اِسلامی تعلیمات سے بھی عدم واقفیت ایک نیا امر اُبھر کر آگے آیا ہے۔ جس شخصیت کو اہلِ اِسلام ابلیس مردود کہتے ہیں اُس نے مسلمانوں کی خدمت کے لئے انسانی جسم اختیار کِیا اور تا ابد شیطانی اثرات سے بچنے کا فامُولا سستے داموں ابُو ہریرہ کو آیت اُلکُرسی کی صُورت میں بتا گیا۔ وہاں پر طریقے کا ذکر نہیں بلکہ اُس نے کہا ’’مَیں تُم کو وہ کلمے سکھاتا ہُوں‘‘ (بحوالہ بُخاری شریف، جلد نمبر ۱، کتاب الوکالت، مکتبہء رحمانیہ لاہور ۱۹۸۵، صفحہ ۹۰۹)
(الخصائص الکبریٰ، جلد دوم، جلال الدین سیوطی، ممتاز اکیڈمی لاہور، صفحہ ۱۹۶) حیرانی کی بات ہے آپ قُرآن کا موازنہ موبائل کے ساتھ کر رہے ہیں۔ تاہم اب یہ نوبت آ گئی کہ ابلیس سے ہمیں قُرآن کی ٹیوشن لینی پڑ گئی۔ یہ تو تاجدارِ مدینہ کا فرضِ منصبی تھا، ابلیس کو کیا موت پڑی تھی کہ طریقہ کار کا تعین کرے۔ بفرضِ محال اگر وہ طریقہ ہی سکھا رہا تھا پھر تو جبرائیل کے طریقے پر سوالیہ نشان اُٹھ جاتا ہے۔ بہر حال اِس کا تعلق طریقے سے نہیں ہے، من مانی تشریحات کر کے آپ کسی کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے. یہ سُنہری گُر مسلمانوں کے ہاتھ ابلیس کی وساطت سے اہلِ اِسلام کو مہیا ہوا جو روزانہ اِس سے ممستفید ہو رہے ہیں۔ اور اِس صدقہء جاریہ کا سہرا ابلیس مردود کے سر سجتا ہے۔ اللہ اکبر!

بھیج اب ہم پہ کوئی اور کتابِ ناطق
گُونگے حرفوں کی تلاوت نہیں ہوگی ہم سے
جھُوٹ بھی کہیں اور سچ کے پیامبر بھی بنیں؟
ہم کو بخشو یہ سیاست نہیں ہو گی ہم سے


مسلمان عبداللہ غازی کا جواب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عاشر صاحب اب آپ کی بدزبانی تو کرسکتے ہیں لیکن علمی انداز میں بات کرکے اپنی بات نہیں منواسکتے اور یہی آپ کی بےبسی اورشکست کا منہ بولنا ثبوت ہے۔ اگرایک بات کا علم آپ کو نہیں تو یہ آپ کی جہالت تو ہوسکتی ہے مخاطب کی نہیں اور اپنی جہالت پر خوش ہوکر آپ کی طرح قلقاریاں مارنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔آپ کی انتہائی بدزبانی پر مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی بدزبانی تواب عیسائی علمیت کی معراج بن چکی ہے جس کا اندازہ آپ کے کمنٹس سے بخوبی ہورہاہے۔132ق م میں مستند کتب کا حوالہ 300ق میں موجود کتب مقدسہ کے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتا آپ کو اگر اس کا رد کرنا ہے توتین سو قبل مسیح سے قبل کی کتب مقدسہ کا حوالہ پیش کریں ۔بلاوجہ کی چولیں مار کر بغلیں نہ بجائیں۔اسینی دستاویزات کے لئے آپ نے جس Rubbish عیسائی ولایتی پادری کا حوالہ دیا ہے وہ ان صحائف پر کوئی اتھارٹی نہیں رکھتا آپ کو چاہیے کہ صحائف ِقمران جوکہ آپ کے لئے سوہان روح بن چکے ہیں ان کا رد اسی سطح کے کسی ماہر سے کرائیں لیکن آپ ابتداء سے ہی اس میں مکمل ناکام نظر آتے ہیں۔یہ فقط ایک ولایتی پادری کا دعویٰ ہے کہ یہ کتب نامکمل ہیں ۔کوئی بھی قمرانی محقق ان کتب کو نامکمل قرار نہیں دیتااور نہ ہی جہالت کی بناء پر ان کتب کو نامکمل کہہ دینے سے یہ کتب نامکمل ہوجائیں گیں۔
اسنیوں کو عیسائیت کابانی میں نے نہیں بلکہ قمرانی کے یہودی ومسیحی محققین نے قرار دیا ہے زرا ہمت ہے تو زرا ماہر صحائف قمران سے ان حقائق کی تردید تو کراکر رکھائیں جو کہ پوری عیسائی دنیا مل کر بھی نہیں کرسکتی۔اسینی مماثلتیں آپ کے بےبسی کونوشتہ دیوار بنارہی ہیں جس پر آپ لفاظی اور بدزبانی سے پردہ نہیں ڈال سکتے۔ایک دیسی عیسائی کی عقیدت اور محققین کی تحقیق میں بہت فرق ہوتا ہے جناب اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہو گا ۔
آبائے کلسیاء جس لٹریچر کو الہامی مانتی آئی ہے نقائیہ کونسل میں ہی اس کو اپاکریفل کی صلیب پر چڑھایاگیا وگرنہ تو مروجہ عہدجدید بھی خود کوالہامی نہیں منواتا کیونکہ یہ خود نقائیہ کونسل کی اختراع ہے ۔باقی رہا لوقا11:51 کی تاریخی حیثیت تو آپ کے علماء خود اس کو مشکوک ٹھہراتے ہیں آپ چاہے کتنی ہی بدزبانی کرلیں اس سے لوقا11:51 کی تاریخی حیثیت بحال نہ ہوئی ہے اورنہ ہوسکتی ہے۔ھالی لولا
باقی آپ کے لفاظی اور بدتہذیبی پر فقط اتنا ہی کہوں گا کہ آپ اب بدزبانی توکرسکتے ہیں لیکن علمی بات نہیں اور آپ کو اجازت ہے کہ کھل کر اپنے اندر کے خبث کو اظہار کیجئے۔شاید آپ بھول رہے ہیں کہ یسوع نے کہا تھا کہ انسان کو وہی چیز ناپاک کرتی ہے جو اس کے منہ سے نکلتی ہے اور ماشاءاللہ آپ سے جو انجیلی تعلیمات پر مبنی کلمات صادر ہورہے ہیں ان شاءاللہ وہی آپ کو ہلاکت کافرزند بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے کیونکہ یسوع نے صاف صاف کہا ہے کہ جو کسی کو راقہ کہے گا نارجہنم کا حقدار ہوگا۔ کھل کر بدزبانی کیجئے آخر آپ نے اپنا ہی نامہ اعمال سیاہ کرنا ہے ۔بس یہ یاد رکھیں کہ ایک دن سب کو خدا کے حضور پیش ہونا ہے اسی دن پتہ چل جائے گا کہ سچ کیا تھا اور جھوٹ کیا تھا مگر پھر افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اس دن رونا اور دانت پیسنا ہوگا۔


مکمل تحریر >>